أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ اپنی سرگوشی سے پہلے صدقے ادا کرو [١٧]۔ پھر جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے بھی تمہیں (اس سے) معاف کردیا تو اب نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ حکم دیا کہ وہ ان بڑے بڑے احکام کی تعمیل کریں جو فی نفسہ مقصود ہیں ،چنانچہ فرمایا :﴿ فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا﴾ ”چنانچہ جب تم نے یہ نہ کیا۔“ یعنی صدقہ پیش کرنا تمہارے لیے آسان نہیں تھا اور نہ یہ کافی ہی تھا کیونکہ کسی کام کا بندے پر آسان ہونا شرط نہیں ہے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے مقید فرمایا :﴿وَتَابَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ﴾ یعنی اس نے صدقہ کرنا تم پر معاف کردیا۔ ﴿فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ﴾ پس تم نماز کو اس کے تمام ارکان وشرائط اور اس کی تمام حدود ولوازم کے ساتھ قائم کرو۔ ﴿وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ﴾ اور مستحق لوگوں کو زکوۃ ادا کرو جو تمہارے مال میں سے تم پر فرض ہے ۔یہی دو عبادات بدنی اور مالی عبادات کی بنیاد ہیں۔ جو کوئی ان عبادات کو شرعی طریقے سے قائم کرتا ہے ،وہی اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو قائم کرتا ہے ،بنابریں فرمایا :﴿وَأَطِيعُوا اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ﴾”اور اللہ اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ “یہ تمام امور کو شامل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرکے ،ان کے نواہی سے اجتناب کرکے ان کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کرکے اور شریعت کی حدود پر رک کر ان کی اطاعت کرنا سب اس میں داخل ہے۔ اس سے عبرت حاصل کرنا اخلاص اور احسان پر مبنی ہے۔ اسی لیے فرمایا:﴿ وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ ان کے اعمال کسی طرح بھی صادر ہوں اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے ،پس انہوں نے جو کچھ اپنے سینوں میں چھپا رکھا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہوئے اپنے علم کے مطابق ان کو جزا دے گا۔