يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! جب تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے (مساکین کو) صدقہ کیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ [١٦] تر بات ہے۔ ہاں اگر تم صدقہ دینے کے لئے کچھ نہ پاؤ تو بلاشبہ اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ اہل ایمان کی تادیب وتعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لیے انکو حکم دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ دیا کریں کیونکہ یہ تعظیم اہل ایمان کے لیے بہتر اور زیادہ پاکیز ہ ہے یعنی ایسا کرنے سے تمہاری بھلائی اور اجر میں اضافہ ہوگا، نیز ہر قسم کی گندگی سے طہارت حاصل ہوگی۔ بے فائدہ سرگوشی کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب واحترام کو ترک کرنا بھی اسی گندگی میں شمار ہوتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ کرنے کا حکم دیا تو یہ چیز اس شخص کی پرکھ کے لیے میزان بن گئی جو علم اور بھلائی کا خواہش مند ہے تو وہ صدقے کی پرواہ نہیں کرے گا ۔جسے بھلائی کی حرص ہے نہ رغبت کی، اس کا مقصد محض کثرت کلام ہے تو اس طرح وہ ایسے امر سے باز رہے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شاق گزرتا ہے، نیز یہ حکم اس شخص کے لیے جو صدقہ دے سکتا ہے۔ جس کے پاس صدقہ دینے کے لیے کچھ نہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں اس کو تنگی میں مبتلا نہیں کیا بلکہ اس کو معاف کردیا اور اس سے نرمی سے کام لیا۔ اور اس شخص کے لیے صدقہ پیش کیے بغیر، جو اس کی قدرت میں نہیں، سرگوشی کرنا مباح ٹھہرا دیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے خوف اور ہر سرگوشی کے وقت ان پر صدقات کی مشقت کو ملاحظہ فرمایا تو ان پر معاملے کو آسان کردیا اور سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ ترک کرنے پر مواخذہ نہیں فرمایا ،البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کا احترام باقی رکھا اس کو منسوخ نہیں فرمایا کیونکہ سرگوشی سے قبل صدقہ مشروع لغیرہ کے باب سے ہے فی نفسہ مقصود نہیں،۔اصل مقصد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب اور اکرام ہے۔