يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اللہ تمہیں اپنی رحمت سے دگنا اجر عطا کرے [٥١] گا اور ایسا نور [٥٢] بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تمہیں معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا ہے، رحم کرنے والا ہے۔
اس آیت کریمہ میں یہ احتمال ہے کہ یہ خطاب ان اہل کتاب سے ہو جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ ان کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کے تقاضے پر عمل کریں۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں، اس کی نافرمانی کو چھوڑ دیں اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ اگر وہ یہ کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں عطا کرے گا : ﴿کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ﴾ ”اپنی رحمت سے دوگنا اجر۔“ یعنی ان کے اجر کے دو حصے ہیں: ایک حصہ ان کے سابق رسولوں پر ایمان لانے کے بدلے میں اور دوسرا حصہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بدلے میں۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ حکم عام ہے اور اس میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سب داخل ہیں اور یہی ظاہر ہے، نیز اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان اور تقوٰی کا حکم دیا ہے جس میں دین کا تمام ظاہر و باطن اور اصول و فروع داخل ہے اور اگر وہ اس عظیم حکم کی تعمیل کریں گے۔ ﴿ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہ ﴾تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انہیں دوگنا اجر عطا کرے گا جس کی مقدار اور وصف اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس سے مراد یا تو ایمان لانے پر اجر اور تقوٰی اختیار کرنے پر اجر ہے یا اوامر کی تعمیل پر اجر اور نواہی سے اجتناب کرنے پر اجر ہے یا تثنیہ سے مراد یکے بعد دیگرے عطائے ثواب میں تکرار ہے۔ ﴿وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ﴾ یعنی وہ تمہیں علم، ہدایت اور روشنی عطا کرے گا جس کی مدد سے تم جہالت کی تاریکیوں میں چل پھر سکو گے اور وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ ﴿ وَاللّٰـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴾ اس ثواب کی یہ کثرت، فضل عظیم کے مالک کے فضل کے سامنے مستبعد نہیں جس کا فضل و کرم تمام آسمانوں اور زمین والوں پر سایہ کناں ہے، لمحہ بھر یا اس سے بھی کم وقت کے لیے مخلوق سے اس کا فضل و کرم جدا نہیں ہوتا۔