لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا
مردوں کے لیے اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں (اسی طرح) عورتوں کے لیے بھی اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں۔ خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ [١٣] ہو۔ ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے
زمانہ جاہلیت میں عرب، اپنی جابریت اور قساوت قلبی کی وجہ سے کمزوروں یعنی عورتوں اور بچوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے تھے۔ وہ صرف طاقتور مردوں کو میراث دیا کرتے تھے ان کے زعم کے مطابق یہ لوگ جنگ وجدل اور لوٹ مار میں حصہ لینے کے قابل تھے۔ پس حکمت والے رب رحیم نے ارادہ فرمایا کہ اپنے بندوں کے لیے وراثت کا ایسا قانون بنا دے جس میں ان کے مرد اور عورتیں، طاقتور اور کمزور سب مساوی ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس قانون کو بیان کرنے سے پہلے ایک مجمل حکم بیان کیا تاکہ نفوس اس قانون میراث کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ جب نفوس اس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور وہ وحشت زائل ہوگئی جس کا سبب بری عادات تھیں تو اس اجمال کی تفصیل آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ ﴾ یعنی مردوں کے لیے حصہ ہے ﴿مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ﴾ یعنی ان میں سے جو کچھ ماں اور باپ پیچھے (ترکہ میں) چھوڑ جاتے ہیں ﴿وَالْأَقْرَبُونَ﴾ ”اور رشتہ دار“ یعنی خاص کے بعد عام کا ذکر کیا ہے ﴿وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ﴾ ” اور عورتوں کے لیے بھی اس ترکے میں حصہ ہے جو والدین اور دیگر اقارب چھوڑ کر فوت ہوتے ہیں“ گویا کہ سوال کیا گیا کہ یہ حصہ عرف عام اور عادت کی طرف راجع ہے اور لوگ جو چاہیں ورثاء کو دے دیں؟ یا میراث کے حصے مقرر شدہ ہیں؟ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ﴾یعنی اللہ تعالیٰ نے، جو علم اور حکمت والا ہے ہر ایک کا حصہ مقرر کردیا ہے۔ ان مقرر کردہ حصوں کا انشاء اللہ عنقریب ذکر آئے گا۔ یہاں ایک اور وہم کا خدشہ ہے، شاید کوئی سمجھے کہ عورتوں اور بچوں کو صرف مال کثیر کی صورت میں حصہ ملے گا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس وہم کا ازالہ کردیا ﴿مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ﴾” خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا بہت۔“ نہایت ہی بابرکت ہے اللہ تعالیٰ جو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔