وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
اور نادانوں کو ان کے مال واپس نہ کرو۔ [٨] جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سامان زیست کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان کے مال سے انہیں کھلاؤ بھی اور پہناؤ بھی اور جب ان سے بات کرو تو اچھی (اور ان کے فائدے کی) بات کرو
﴿السُّفَهَاءَ﴾ (سفیہ) کی جمع ہے اور (سفیہ) ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بے عقل ہونے مثلاً پاگل وغیرہ یا عدم بلوغت جیسے چھوٹا بچہ اور بے سمجھ وغیرہ ہونے کی وجہ سے اپنے مال میں تصرف اور دیکھ بھال کی اہلیت سے محروم ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسے بے عقل لوگوں کے سرپرستوں کو اس ڈر سے ان کا مال ان کے حوالے کرنے سے روک دیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اس کو خراب یا تلف کردیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مال کو اپنے بندوں کے دینی اور دنیاوی مفادات و مصالح کی دیکھ بھال کے لیے بنایا ہے اور یہ بے سمجھ لوگ اس مال کی دیکھ بھال اور اس کی حفاظت سے قاصر ہیں۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سرپرست کو حکم دیا ہے کہ وہ مال ان بے سمجھ لوگوں کے حوالے نہ کرے بلکہ وہ اس مال میں سے ان کے کھانے پینے اور کپڑے لتے کا انتظام کرے اور جو ان کی دینی اور دنیاوی ضروریات ہیں ان میں خرچ کرے اور ان سے اچھی بات ہی کہے۔ یعنی جب وہ اپنے مال کا مطالبہ کریں تو وہ ان سے وعدہ کرے کہ وہ ان کے بالغ اور عاقل ہوجانے کے بعد ان کا مال ان کو لوٹا دے گا اور ان کے دل جوئی کی خاطر ان سے نرم مقالی سے پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ کا ان اموال کو سرپرستوں کی طرف مضاف کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان بے سمجھ لوگوں کے مال کا اس طرح انتظام کرنا ان پر فرض ہے جس طرح وہ اپنے مال کا انتظام کرتے ہیں مثلاً مال کی حفاظت، اس میں تصرف اور اس مال کو خطرات سے بچانا وغیرہ۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ پاگل، نابالغ اور بے عقل جب مال کے مالک ہوں تو ان پر انہی کے مال میں سے اخراجات کئے جائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ ﴾ ” اس مال میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو۔“ نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے ممکن حد تک اخراجات میں سرپرست کا قول اور اس کا دعویٰ قابل قبول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان بے سمجھ لوگوں کے مال پر امین مقرر کیا ہے اور امین کا قول قابل قبول ہے۔