يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان [١] سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے (دنیا میں) بہت سے مرد [٢] اور عورتیں پھیلا دیں۔ نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی [٣] رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔ بلاشبہ اللہ تم پر ہر وقت نظر رکھے ہوئے ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورت کا افتتاح تقویٰ کے حکم، اپنی عبادت کی تاکید اور صلہ رحمی کے حکم اور اس کی تاکید سے کیا ہے۔ اور ان اسباب کو بیان کیا ہے جو ان تمام امور کے موجب ہیں اور تقویٰ کا موجب یہ ہے ﴿رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم ﴾” وہ تمہارا رب ہے جس نے تمہیں پیدا کیا“ تمہیں رزق عطا کیا اور بڑی بڑی نعمتوں کے ذریعے سے تمہاری تربیت کی اور ان جملہ نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اس نے تمہیں پیدا کیا ﴿مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا ﴾ ” ایک ہی جان سے اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا“ تاکہ وہ اس کے مشابہ اور مناسب ہو اور اسے اس کے پاس سکون حاصل ہو، اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی تکمیل ہو اور اس سے فرحت و سرور حاصل ہو۔ اسی طرح تقویٰ کا موجب اور اس کا داعی اس کے نام پر تمہارا ایک دوسرے سے سوال کرنا اور تمہارا تعظیم کرنا ہے۔ حتیٰ کہ جب تم اپنی کوئی ضرورت پوری کرنا چاہتے ہو تو تم اپنے سوال میں اس کا وسیلہ اختیار کرتے ہو۔ پس جو کوئی دوسرے کے لیے یہ چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے ” میں اللہ کے نام پر تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو فلاں کام کر“ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت جا گزیں ہے جو اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو رد نہ کرے جو اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کرتا ہے جیسا کہ تم نے اس کی اس ذریعہ سے تعظیم کی ہے پس تمہیں چاہئے کہ تم اس کی عبادت اور تقویٰ کے ذریعے سے اس کی تعظیم کرو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بھی آگاہ فرمایا ہے کہ وہ نگہبان ہے وہ بندوں کی حرکات و سکنات، ان کے کھلے چھپے تمام احوال میں ان کی خبر رکھتا ہے اور ان احوال میں ان کا نگہبان ہے اللہ تعالیٰ کا نگہبان ہونا جن امور کا موجب بنتا ہے ان میں تقویٰ کے التزام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے حیا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس خبر میں کہ اس نے انہیں ایک جان سے تخلیق کیا ہے اور اس نے ان کو روئے زمین کے کناروں تک پھیلایا جبکہ وہ ایک ہی اصل کی طرف لوٹتے ہیں۔۔۔ مقصد یہ ہے کہ بندے ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور نرمی کے ساتھ پیش آیا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا حکم، صلہ رحمی کے حکم اور قطع رحمی کی ممانعت کے ساتھ ملا کر بیان فرمایا تاکہ یہ حق موکد ہوجائے۔ یعنی جس طرح حقوق اللہ کو قائم کرنا لازمی ہے اسی طرح حقوق العباد کو قائم کرنا بھی لازم ہے۔ خاص طور پر رشتہ داروں کے حقوق کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ بلکہ رشتہ داروں کے حقوق کو قائم کرنا تو حقوق اللہ میں شمار ہوتا ہے جن کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ غور کیجیے کہ اللہ نے کیسے اس سورت کا افتتاح تقویٰ کے اختیار کرنے، صلہ رحمی اور عمومی طور پر بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے حکم کے ساتھ کیا، پھر اس کے بعد اس سورت میں اس کی ابتدا سے لے کر انتہا تک ان تمام امور کی پوری تفصیلات بیان ہوئی ہیں گویا یہ سورۃ مبارکہ مذکورہ امور کی ان تفصیلات کو بیان کرتی ہے جن کو مجمل رکھا گیا تھا اور ان امور کو اضح کرتی ہے جو مبہم تھے۔ اللہ تبارک کے ارشاد﴿وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا ﴾ ” اور پیدا کیا اس سے اس کا جوڑا“ میں شوہروں اور بیویوں کے حقوق کی مراعات پر تنبیہ ہے اور ان کو قائم کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ بیویاں بھی شوہروں ہی کی صلب سے پیدا کی گئی ہیں۔ پس شوہروں اور بیویوں کے درمیان قریب ترین نسب، مضبوط ترین اتصال اور نہایت قوی رشتہ ہے۔