فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
پس (اے جن و انس)! تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں [١١] کو جھٹلاؤ گے؟
چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی نعمتوں کا ذکر فرمایا جن کا آنکھوں اور بصیرت کے ذریعے سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور خطاب دونوں گروہوں کو یعنی جنات اور انسانوں کے لیے ہے اس لیے اپنی نعمتوں کو متحقق کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾’’یعنی )اے جن وانس( پھر تم اللہ کی کون کون سی دینی اور دنیاوی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ جنات کے سامنے تلاوت فرمائی تو ان کا کیا ہی خوبصورت جواب تھا۔ جب بھی آپ ﴿فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾ پڑھتے تو وہ جواب میں کہتے لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْدُ’’اے ہمارے رب! ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے‘‘ چنانچہ تو ہی ہر قسم کی حمدوثنا کا مستحق ہے۔[جامع الترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ الرحمٰن، حدیث:3291] اسی طرح بندہ مومن کو چاہیے کہ جب اس کے سامنے اللہ کی نعمتوں اور اس کے احسانات کی آیات تلاوت کی جائیں تو ان کا اقرار کرے، ان نعمتوں پر اللہ کاشکر ادا کرے اور اس کی حمدوثنا بیان کرے۔