وَلَقَدْ جَاءَ آلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ
آل فرعون کے ہاں بھی ڈرانے والے آئے تھے۔
﴿وَلَقَدْ جَاءَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ﴾ اور بلاشبہ فرعون اور اس کی قوم کے پاس (بھی) ڈرانے والے آئے۔ اللہ نے ان کے پاس واضح دلائل اور بڑے بڑے معجزات کے ساتھ کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا، آپ کی تائید کی، ان کو بڑے بڑے عبرت ناک واقعات کا مشاہدہ کرایا جن کا مشاہدہ ان کے سوا کسی اور کو نہیں کرایا۔ مگر انہوں نے اللہ کی تمام نشانیوں کو جھٹلادیا، تب اللہ نے ان کو ایک غالب اور قدرت رکھنے والی ہستی کے مانند عذاب کی گرفت میں لے لیا، پس فرعون اور اس کے لشکروں کو سمندر میں غرق کردیا۔ ان واقعات کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کو ڈرایا جائے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے ہیں۔ بنابریں فرمایا: ﴿اَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰیِٕکُمْ﴾’’(اے اہل عرب!) کیا تمہارے کافر ان کافروں سے بہتر ہیں؟‘‘ یعنی کیا یہ لوگ جنہوں نے افضل المرسلین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی ہے، ان جھٹلانے والوں سے بہتر ہیں جن کی ہلاکت اور ان پر گزرنے والے حالات کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے؟ اگر یہ لوگ ان لوگوں سے بہتر ہیں تو ممکن ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں اور ان پر عذاب نازل نہ ہوجوان شریر لوگوں پر نازل ہوا تھا مگر معاملہ یوں نہیں کیونکہ اگر یہ لوگ ان لوگوں سے بڑھ کر شرپسند نہیں تو ان سے اچھے بھی نہیں۔