تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِّمَن كَانَ كُفِرَ
جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی [١٤]۔ یہ بدلہ اس شخص کی خاطر دیا گیا جس کا انکار [١٥] کیا گیا تھا۔
﴿تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا ﴾ یعنی یہ کشتی حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو آپ پر ایمان لائے تھے اور دیگر مخلوقات کی ان اصناف کے ساتھ پانی پر چل رہی تھی۔ جن کو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے ساتھ اس میں سوار کیا تھا یہ اللہ کی نگرانی میں ڈوبنے سے اس کی حفاظت اور اس کی خاص دیکھ بھال کے تحت پانی پر رواں دواں تھی اور وہ بہت اچھا حفاظت کرنے والا اور بہت اچھا کارساز ہے۔ ﴿جَزَاءً لِّمَنْ کَانَ کُفِرَ﴾ یعنی ہم نے نوح کو غرق عام سے بچایا۔ اس جزا کے طور پر آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلا دیا اور آپ کا انکار کیا مگر آپ ان کو دعوت دینے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرنے پر ڈٹے رہے، کوئی آپ کو اپنے مقصد سے ہٹا سکا نہ آپ کاراستہ روک سکا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا: ﴿ قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾( ھود:11؍48) ’’کہا گیا اے نوح! اتر تو ہماری طرف سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تجھ پر اور ان قوموں پر (نازل کی گئی ہیں) جو آپ کے ساتھ ہیں، اور کچھ دوسری قومیں ہیں جن کو ہم دنیا میں کچھ فائدہ دیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔‘‘ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ ہم نے نوح کی قوم کو ہلاک کیا اور ہم نے ان کو عذاب اور رسوائی میں ڈالا، ان کے کفر اور عناد کی جزا کے طور پر۔ یہ معنی اس شخص کی قراءت پر مبنی ہے جس نے کَفَرَ کے کاف کو زبر کے ساتھ پڑھا ہے۔