أَفَمِنْ هَٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ
کیا تم اس بات [٤٢] سے تعجب کرتے ہو؟
پھر اللہ تبارک وتعالی نے حضر محمد کریم کی نبوت کا انکار کرنے والوں اور قرآن کو جھٹلانے والوں کو وعید سنائی چنانچہ فرمایا ﴿اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ﴾ یعنی کیا تم اس کلام پر جو بہترین اور افضل واشرف کلام ہے تعجب کرتے ہو اور اسے امور عادیہ اور حقائق معروفہ کے خلاف قرار دیتے ہو؟ یہ ان کی جہالت، گمراہی اور عناد ہے ورنہ یہ تو ایسا کلام ہے کہ جب وہ بیان کیا جاتا ہے تو سراسر صدق ہے جب وہ بات کہتا ہے تو وہ حق کو باطل سے جدا کرنے والا قول ہے۔ بے ہودہ بات نہیں ہے یہ قرآن عظیم ہے جسے اگر پہاڑ پر اتارا جاتا تو آپ دیکھتے کہ وہ خوف اور ڈر سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ جو اصلاح کی طلب رکھنے والوں کی رائے، عقل، راست بازی، ثابت قدمی اور ایمان وایقان میں اضافہ کرتا ہے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ تعجب تو اس شخص کی عقل، سفاہت اور گمراہی پر ہونا چاہیے جو اس قرآن پر تعجب کرتا ہے۔