إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنثَىٰ
جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے [١٨] وہ فرشتوں کو عورتوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے، انبیا ومرسلین کو جھٹلانے والے جو اللہ پر عدم ایمان کے سبب سے آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایسے اقوال وافعال کی جسارت کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی دشمنی پر مبنی ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں: فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ پس انہوں نے اللہ کو ولادت سے منزہ قرار دیا نہ انہوں نے فرشتوں کا اکرام کیا اور نہ انہوں نے ان کو مؤنث سے بالاتر سمجھا۔ حالانکہ انہیں اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم حاصل ہے نہ اس کے رسول کی طرف سے اور نہ عقل اور فطرت ہی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ بلکہ علم تو ان کے قول کے تناقض پر دلالت کرتا ہے، نیز اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اولاد اور بیوی سے منزہ ہے کیونکہ وہ اکیلا اور یکتا، متفرد اور بے نیاز ہے اس نے کسی کو جنم دیا ہے نہ وہ جنم دیا گیا ہے اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہی ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے مقرب اور مکرم بندے ہیں جو اس کی خدمت پر قائم ہیں ﴿ لَّا يَعْصُونَ اللّٰـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴾ (التحریم :66؍6)’’اللہ ان کو جو حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘ مشرکین اس بارے میں بدترین قول کی پیروی کررہے ہیں اور وہ ہے محض ظن وگمان جو حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا کیونکہ حق کے لیے ایسے یقین کا وجود ضروری ہے جو نہایت روشن دلائل وبراہین سے مستفاد ہو چونکہ ان مشرکین کی عادت یہ ہے کہ انہیں اتباع حق سے کوئی غرض نہیں ان کی غرض وغایت اور ان کا مقصد تو خواہشات نفس کی پیروی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ اس شخص سے منہ موڑ لیں جو اللہ کے ذکر جو کہ حکمت سے لبریز ہے اور قرآن عظیم سے اعراض کرتا ہے۔ پس اس نے گویا علوم نافعہ سے منہ موڑا وہ دنیا کی زندگی کے سوا کچھ نہیں چاہتا۔ پس یہ اس کے ارادے کی انتہا ہے یہ چیز معلوم اور متحقق ہے کہ بندہ صرف اسی چیز کے لیے عمل کرتا ہے جس کا وہ ارادہ کرتا ہے پس ان لوگوں کی کوشش اور دوڑ دھوپ دنیا اور اس کی لذت وشہوات تک محدود ہے یہ لذات اور شہوات جیسے بھی حاصل ہوتی ہیں یہ انہیں حاصل کرتے ہیں اور جس راستے سے بھی ان کا حصول آسان ہو یہ اس کی طرف لپکتے ہیں۔