وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ
ستارے [١] کی قسم جب وہ ڈوبنے لگے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ستارے کے ٹوٹنے کی، یعنی رات کے آخری حصے میں جب رات کے جانے اور دن کے آنے کا وقت ہوتا ہے اس وقت افق میں ستارے کے گرنے کی قسم کھاتا ہے کیونکہ اس میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو اس امر کی موجب ہیں کہ اس کی قسم کھائی جائے اور صحیح معنی یہ ہے کہ ’’النجم‘‘ ستارہ اسم جنس ہے جو تمام ستاروں کو شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو وحی لے کر آئے ہیں، اس کی صحت پر اللہ نے ستاروں کی قسم کھائی ہے کیونکہ وحی الٰہی اور ستاروں کے مابین ایک عجیب مناسبت ہے اللہ نے ستاروں کو آسمان کی زینت بنایا اسی طرح اللہ نے وحی اور اس کے آثار کو زمین کے لیے زینت بنایا پس اگر انبیائے کرام کی طرف سے موروث علم نہ ہوتا تو لوگ گمراہی کے تیرہ وتار اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے جو شب تاریک کے اندھیروں سے بھی گہرے ہوتے ہیں۔ جس امر پر قسم کھائی گئی ہے وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے علم میں ضلالت اور اپنے قصد میں گمراہی سے منزہ اور پاک ہونا اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ اپنے علم میں راست رو، راہ راست کی طرف رہنمائی کرنے والے حسن قصد رکھنے والے اور مخلوق کی خیرخواہی کرنے والے ہیں۔ اس کے برعکس فساد علم اور سوء قصد کاراستہ وہ ہے جس پر گمراہ لوگ گامزن ہیں۔