أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ ۖ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ (عالم بالا کی) باتیں سن آتے ہیں؟ (اگر ایسی بات ہو) تو ان میں سے کوئی سننے والا [٣٢] صریح سند کے ساتھ وہ بات پیش کرے
﴿اَمْ لَہُمْ سُلَّمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیْہِ﴾ ’’کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر آسمان کی باتیں سن آتے ہیں‘‘ یعنی کیا انہیں غیب کا علم ہے اور وہ ملأ اعلیٰ کی باتیں سنتے ہیں اور ایسے امور کے بارے میں خبریں دیتے ہیں جنہیں ان کے سوا کوئی نہیں جانتا ﴿ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُم ﴾ ’’پھر چاہیے کہ ان کا سننے والا لائے۔‘‘ یعنی ملأ اعلیٰ کی باتیں سننے کا دعوے دار ﴿ بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴾ ’’کوئی صریح دلیل۔‘‘ اور یہ دلیل اس کے پاس کہاں سے آسکتی ہے اللہ تعالیٰ ہی غیب اور موجود کا علم رکھتا ہے وہ کسی غیب کو ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جس پر وہ غیب کو ظاہر کرنے پر راضی ہو وہ اپنے علم میں سے جو چاہتا ہے اس کے بارے میں اس رسول کو آگاہ کرتا ہے جبکہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم رسولوں میں سے سب سے افضل سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور ان کے امام ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کی توحید اس کے وعدے اور وعید وغیرہ کے بارے میں سچی خبریں دینے والے ہیں اور آپ کی تکذیب کرنے والے جہالت، ضلالت، گمراہی، اور عناد میں مبتلا ہیں تب دونوں خبر دینے والوں میں سے کون زیادہ مستحق ہے کہ اس کی خبر قبول کی جائے، خاص طور پر جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن امور کی خبر دی ہے ان پر دلائل و براہین قائم ہیں اور جو اس بات کے موجب ہیں کہ یہ عین الیقین، حقیقت اور کامل ترین صداقت ہے ان کا اپنے دعوے (نبیا کے جھوٹے ہونے) پر دلیل قائم کرنا تو کجا، وہ اس میں کوئی شبہ تک نہیں پیدا کرسکتے۔