أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ
یا کیا وہ بغیر کسی چیز کے خود ہی [٢٨] پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود (اپنے) خالق [٢٩] ہیں۔
﴿اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ ہُمُ الْخٰلِقُوْنَ﴾ ’’کیا یہ کسی کے پیدا کیے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خوداپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں؟‘‘ یہ ان کے سامنے ایک ایسی چیز کے ذریعے سے استدلال ہے جس میں حق کو تسلیم کیے بغیر ان کے لیے کوئی چارہ کار نہیں یا اس سے ان کا عقل ودین کے موجبات سے نکلنا ثابت ہوجائے گا۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کرتے ہیں اور نبیاء ورسل کو جھٹلاتے ہیں اور یہ اس حقیقت کے انکار کو مستلزم ہے کہ اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے شریعت کے ساتھ ساتھ عقل میں بھی یہ چیز متحقق ہے کہ ان کی تخلیق تین امور میں سے کسی ایک سے خالی نہیں: 1۔ ان کو کسی چیز کے بغیر پیدا کیا گیا ہے یعنی ان کا کوئی خالق نہیں جس نے ان کو تخلیق کیا ہو بلکہ وہ کسی ایجاد اور موجد کے بغیر وجود میں آئے ہیں اور یہ عین محال ہے۔ 2۔ انہوں نے خود اپنے آپ کو تخلیق کیا ہے اور یہ بھی محال ہے کیونکہ اس بات کا تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی اپنے آپ کو بذات خود وجود بخشے۔ 3۔ جب مذکورہ بالادونوں امور باطل ہوگئے اور ان کا محال ہونا ثابت ہوگیا تو تیسری بات متعین ہوگئی کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان کو تخلیق کیا۔ جب یہ بات متعین ہوگئی تو معلوم ہوا کہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے جس کے سوا کسی اور ہستی کی عبادت مناسب ہے نہ درست۔