آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ
جو کچھ ان کا پروردگار انہیں دے گا وہ لے [٩] رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے
﴿آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ﴾ ” ان کا رب انہیں جو کچھ دے گا وہ اسے لے لیں گے۔“ اس میں اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ اہل جنت کا آقا، ان کی نعمتوں کے بارے میں تمام آرزوئیں پوری کرے گا اور وہ اپنے آقا سے راضی ہو کر یہ نعمتیں قبول کریں گے، اس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، ان کے نفوس خوش ہوں گے، وہ ان کو بدلنا چاہیں گے نہ اس سے منتقل ہونے کی خواہش کریں گے۔ (جنت میں) ہر شخص کو اتنی نعمتیں عطا ہوں گی کہ وہ اس سے زیادہ طلب نہیں کرے گا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ متقین کا یہ وصف دنیا کے اندر ہو یعنی اللہ تعالیٰ دنیا کے اندر جو اوامرونواہی ان کو عطا کرتا ہے وہ نہایت خوش دلی، انشراح صدر کے ساتھ، اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اور بہترین طریقے سے ان پر عمل کرتے ہوئے انہیں قبول کرتے ہیں اور جن امور سے اللہ تعالیٰ نے ان کرروکا ہے وہ اس سے پوری طرح رک جاتے ہیں۔ پس جن کو اللہ نے اوامر ونواہی عطا کیے ہیں، یہ سب سے بڑا عطیہ ہے اور اس کا حق یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتے ہوئے، اطاعت کے جذبے کے ساتھ قبول کیا جائے۔ پہلا معنی سیاق کلام کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (آگے چل کر) ان الفاظ میں دنیا کے اندر ان کے وصف اور ان کے اعمال کا ذکر کیا ہے۔ ﴿إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذٰلِكَ﴾ یعنی اس وقت سے پہلے، جب انہیں جنت کی نعمتیں حاصل ہوں گی ﴿ مُحْسِنِينَ﴾ ” وہ نیکوکار تھے۔ “