تَبْصِرَةً وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ
(ان چیزوں میں) ہر رجوع کرنے والے بندے کے لئے بصیرت اور سبق (حاصل کرنے کا سامان) ہے
کیونکہ ان اشیاء میں غوروفکر کرنے میں ﴿تَبْصِرَةً﴾ ” ہدایت ہے“ جس کے ذریعے سے بندہ جہالت کے اندھے پن میں بصیرت حاصل کرتا ہے ﴿وَذِكْرَىٰ﴾ ” اور یاد دہانی ہے“ جس سے بندہ نصیحت حاصل کرتا ہے جو دین ودنیا میں اسے فائدہ دیتی ہے اور اس کے ذریعے سے وہ ان امور میں نصیحت حاصل کرتا ہے، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی ہے اور اس سے ہر شخص بہرہ مند نہیں ہوتا بلکہ ﴿ لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ ﴾ صرف وہی بندہ بہرہ مند ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا، محبت اور خوف ورجا کے ساتھ اس کی طرف توجہ کرنے والا اور اس کے داعی کی آواز پر لبیک کہنے والا ہے۔ رہا وہ شخص جو اس نصیحت کو جھٹلاتا اور اس سے روگردانی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں اور تنبیہ کرنے والے اسے کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ اس زمین پر جو بڑی بڑی مخلوق، قوت اور شدت کا وجود ملتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے اور اس میں جو حسن، مہارت، نادر صنعت کاری اور بے مثال تخلیق پائی جاتی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس کے اندر بندوں کے لئے جو فوائد اور مصالح پنہاں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ہے جو ہر چیز پر وسیع اور اس کے جودو کرم کی دلیل ہے، جو ہر زندہ کے لئے عام اور سب کو شامل ہے۔ اس کے اندر جو بڑی بڑی مخلوق اور بے مثال نظام ہے وہ اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی واحد، یکتا اور بے نیاز ہے، جس کی کوئی بیوی ہے نہ بیٹا اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہی ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جس کے سوا کوئی عبادت تذلل، اور محبت کے لائق نہیں۔ زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد جو اسے زندگی عطا ہوتی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا تاکہ ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے۔