بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ
بلکہ جب حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا۔ چنانچہ یہ لوگ ایک الجھی ہوئی بات [٦] میں پڑ گئے
﴿ بَلْ﴾ ” بلکہ“ ان کا وہ کلام جو ان سے صادر ہوا ہے، محض اس حق کے ساتھ ان کا عناد اور تکذیب ہے جو صدق کی بلند ترین نوع ہے۔ ﴿ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ﴾ ” جب وہ ان کے پاس آیا تو وہ ایک الجھاؤ میں پڑگئے۔“ یعنی وہ ایک مختلف اور مشتبہ معاملے میں پڑے ہوئے ہیں، کسی چیز پر انہیں ثبات حاصل ہے نہ قرار۔ کبھی تو آپ کے بارے میں الزام تراشی کرتے ہوئے کہتے ہیں :” تو جادوگر ہے“ کبھی کہتے ہیں :” تو پاگل ہے“ اور کبھی کہتے ہیں :” تو شاعر ہے“ اسی طرح انہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، ہر کسی نے اپنی فاسد رائے کے تقاضے کے مطابق اس میں کلام کیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جس نے حق کی تکذیب کی، ہر کسی نے اپنی فاسد رائے کے تقاضے کے مطابق اس میں کلام کیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جس نے حق کی تکذیب کی، وہ مشتبہ معاملے میں پڑا ہوا ہے، اسے کوئی راہ سجھائی دیتی ہے نہ قرار آتا ہے، اس لئے تو اس کے معاملات کو باہم متناقض اور افک و بہتان پر مبنی پائے گا۔ جو کوئی حق کی اتباع اور اس کی تصدیق کرتا ہے، اس کا معاملہ درست اور اعتدال کی راہ پر ہوتا ہے، اس کا فعل اس کے قول کی تصدیق کرتا ہے۔