قُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
آپ ان (بدویوں) سے کہئے : کیا تم اللہ کو اپنی دینداری جتلاتے [٢٦] ہو حالانکہ اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
﴿ قُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللّٰـهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” کہہ دیجئے : کیا تم اللہ تعالیٰ کو اپنی دین داری سے آگاہ کر رہے ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے بخوبی آگاہ ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔“ یہ تمام اشیاء کو شامل ہے اور دل کے اندر جو ایمان اور کفر، نیکی اور بدی ہوتی ہے وہ بھی اسی میں داخل ہے اور اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ جانتا ہے اور وہ اس کی جزا دے گا۔ اگر اچھا عمل ہوتا تو اچھی جزا ہوگی اور برا عمل ہوگا تو بری جزا ہوگی۔ یہ اس شخص کا حال ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے حالانکہ اس میں ایمان نہیں ہوتا۔ یہ دعویٰ یا تو اللہ تعالیٰ کو آگاہ کرنے کے لئے ہے درآنحالیکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ ہے یا اس کلام کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر احسان کا اظہار ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے اس میں ان کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو اس کا دنیاوی فائدہ حاصل ہوا ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایسے معاملے سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ہے جس سے آراستہ نہیں ہوا جاسکتا اور ایسے معاملے پر فخر کرنا ہے جو قابل فخر نہیں، کیونکہ احسان اور نوازش کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے۔