إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ
(حقیقی) مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہیں پڑے [٢٥] اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی سچے (مسلمان) ہیں۔
﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ﴾ یعنی حقیقی مومن ﴿ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ ﴾ وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور اللہ کے راستے میں جہاد کو یکجا کیا اور جس نے کفار کے ساتھ جہاد کیا تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اس کے دل میں کامل ایمان ہے کیونکہ جو کوئی اسلام، ایمان اور اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کرنے کے لئے دوسروں سے جہاد کرتا ہے تو اس کا اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا زیادہ اولیٰ ہے۔ نیز اس لئے بھی کہ جو کوئی جہاد کی قوت نہیں پاتا تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے لئے عدم شک و ریب کی شرط عائد کی ہے کیونکہ ایمان نافع سے مراد ہے اس معامے میں قطعی یقین سے بہرہ ور ہونا، جس پر اللہ تعالیٰ نے ایمان رکھنے کا حکم دیا ہے، جس میں کسی لحاظ سے بھی شک و شبہ کا شائبہ نہ ہو۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴾ ” یہی لوگ سچے ہیں“ یعنی جنہوں نے اعمال جمیلہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی، کیونکہ ہر معاملے میں صدق ایک بڑا دعویٰ ہے، جس میں صاحب صدق کسی دلیل و برہان کا محتاج ہوتا ہے اور ایمان کا دعویٰ تو سب سے بڑا دعویٰ ہے جس پر بندے کی سعادت، ابدی کامیابی اور سرمدی فلاح کا دارومدار ہے۔ پس جو کوئی ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کے واجبات و لوازم کو قائم کرتا ہے۔ وہی حقیقی اور سچا مومن ہے۔ اور جو کوئی ایسا نہیں تو وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں اور اس کے اس دعوائے ایمان کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایمان دل کے اندر ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے ایمان کا اثبات کرنا یا اس کی نفی کرنا، گویا دل میں جو کچھ ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو آگاہ کرنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں بے ادبی اور بدظنی ہے۔