إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
مومن تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح [١٣] کرا دیا کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ﴾ ” بے شک سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔“ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومنین کے درمیان قائم کیا ہے، زمین کے مشرق یا مغرب میں کوئی بھی شخص جو اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مومنوں کا بھائی ہے۔ یہ ایسی اخوت ہے جو اس بات کی موجب ہے کہ مومن اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند کریں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں، اور وہ چیز اس کے لئے ناپسند کریں جسے وہ اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں۔ بنابریں رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی اخوت ایمان کی بنا پر حکم دیتے ہوئے فرمایا :” باہم حسد نہ کرو، مال کی خریدو فروخت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی نہ دو، ایک دوسرے سے ناراض نہ ہو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ، مومن، مومن کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔ “ [صحیح البخاری، النکاح، باب لایخطب علی خطبةأخیه۔۔۔حدیث :1543 مختصراً أو صحیح مسلم، البروالصلة، باب تحریم ظلم المسلم ۔۔۔حدیث :2564] صحیحین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے آپ نے فرمایا:” مومن مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے جو ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسری میں ڈال کر دکھایا۔ [صحیح البخاری،الأدب ،باب تعاون المؤمنین بعضھم بعضاً،حدیث:6026صحیح مسلم ،البروالصلة،باب تراحم المؤمنین۔۔۔حدیث2585] اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ تمام مومنین ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کریں اور ایک دوسرے سے ایسا سلوک کریں جس سے باہمی الفت، محبت اور باہمی میل جول پیدا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دوسرے کے حقوق کی تائید ہے۔ اہل ایمان کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب وہ آپس میں کسی ایسی لڑائی میں مبتلا ہوجائیں جو دلوں میں تفرقہ، باہم ناراضی اور ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنے کی موجب ہو تو اہل ایمان اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں تاکہ ان کی باہمی دشمنی ختم ہوجائے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے عمومی تقویٰ کا حکم دیا اور قیام تقویٰ اور مومنوں کے حقوق کی ادائیگی پر رحمت کو مترتب فرمایا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴾ ” تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ اور جب اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہوجاتی ہے تو دنیا و آخرت کی ہر بھلائی حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اہل ایمان کے حقوق کی عدم ادائیگی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان دو آیات کریمہ میں مذکورہ بالا فوائد کے علاوہ بھی بعض فوائد ہیں : (1) اہل ایمان کا ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا، اخوت ایمانی کے منافی ہے، اس لئے یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ (2) ایمان اور اخوت ایمانی، آپس کی لڑائی کے باوجود زائل نہیں ہوتے جیسے دوسرے کبیرہ گناہوں سے ایمان زائل نہیں ہوتا، جو شرک سے کم تر ہوں۔ یہ اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔ (3) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ مومنوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرانا واجب ہے۔ (4) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ باغیوں کے خلاف لڑنا واجب ہے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف نہ لوٹ آئیں۔ (5)نیز یہ آیات کریمہ اس پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ اگر باغی غیر اللہ کے حکم کی طرف رجوع کریں یعنی وہ اس طرح رجوع کریں جس پر قائم رہنا اور اس کا التزام جائز نہ ہو، تو غیر اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں۔ (6) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ باغیوں کے اموال معصوم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بغاوت پر جمے رہنے کی بنا پر، ان کے اموال کی بجائے خاص طور پر ان کے خون کو مباح قرار دیا ہے۔