سورة الفتح - آیت 26

إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جب کفار مکہ نے (صلح حدیبیہ کے موقعہ پر) اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت کی عصبیت [٣٩] کی ٹھان لی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مومنوں پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں تقویٰ کی بات کا پابند رکھا اور وہی اس کے زیادہ حقدار [٤٠] اور اس کے اہل تھے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ﴾ ” جب کہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں عار کو جگہ دی اور عار بھی جاہلیت کی“ کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاہدے کی دستاویز سے (بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) کو نکال دیا، نیز انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو اس سال مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ مسلمان قریش پر غالب آکر مکہ میں داخل ہوئے ہیں۔ یہ اور اس قسم کے تمام امور، جاہلیت کے امور ہیں جو ان کے دلوں میں موجود تھے اور بے شمار گناہوں کے موجب بنے رہے۔ ﴿فَأَنزَلَ اللّٰـهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل فرمائی۔“ اس لئے کفار کے برتاؤ کے مقابلہ میں، ان پر غضب و غصہ غالب نہ آیا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر انہوں نے صبر کیا اور ان شرائط کا التزام کیا، جن میں اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم تھی، خواہ وہ کچھ بھی تھیں اور انہوں نے باتیں بنانے والوں کی کوئی پروا کی نہ ملامت کرنے والوں کی ملامت کو خاطر میں لائے۔ ﴿وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ﴾ ” اور ان کو تقویٰ کی بات پر قائم رکھا۔“ اس سے مراد کلمہ (لَاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ) اور اس کے حقوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو لازم ٹھہرایا کہ کلمہ اور اس کے حقوق کو ادا کریں۔ پس اہل ایمان نے ان حقوق کا التزام کرکے ان کو قائم کیا۔ ﴿ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا﴾ اور وہ اس چیز کے، دوسروں کی نسبت زیادہ مستحق تھے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ تھے وہ ﴿أَهْلَهَا ﴾ ” اس کے اہل“ جو اپنے آپ کو اس کا اہل جانتے تھے کیونکہ ان کے پاس جو کچھ تھا اور ان کے دلوں میں جو بھلائی تھی اللہ تعالیٰ جانتا تھا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا﴾ ” اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔ “