طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ ۚ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ
(چاہئے تو یہ تھا کہ وہ نبی کی) اطاعت کرتے اور بھلی بات کہتے۔ پھر جب (جہاد کا) معاملہ طے پا گیا تو اگر وہ اللہ سے (کئے ہوئے عہد میں) سچے رہتے تو یہ ان کے لئے [٢٥] بہتر تھا۔
﴿ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ ﴾ ” پس جب بات پختہ ہوگئی۔“ یعنی جب کوئی سخت اور واجب معاملہ آگیا تو اس حال میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرکے اور اس کی اطاعت میں پوری کوشش کے ذریعے سے، اس کے ساتھ صدق کا معاملہ رکھتے ﴿ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ﴾ تو یہ حال ان کے پہلے حال سے بہتر ہوتا، اور اس کی مندرجہ ذیل وجوہ ہیں : (1) بندہ ہر لحاظ سے ناقص و ناتمام ہے، اسے کوئی قدرت حاصل نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے، لہٰذا وہ اس سے زیادہ طلب نہ کرے جس کے کنارے پر وہ کھڑا ہوا ہے۔ (2) جب اس کا نفس مستقبل کی فکر میں لگ جاتا ہے، تو وہ حاضر اور مستقبل کے کام پر عمل کرنے میں کمزوری دکھاتا ہے۔ رہی موجودہ صورت حال، تو ارادہ اور ہمت، اس سے نکل کر دوسری طرف (مستقبل کی امیدوں میں) منتقل ہوجاتے ہیں اور عمل ارادے کے تابع ہوتا ہے اور رہا مستقبل تو اس کے آتے آتے ہمت جواب دے جاتی ہے تو اسے کسی کام کی توفیق اور مدد حاصل نہیں ہوتی۔ تب اس کے خلاف مدد نہیں کی جاتی۔ (3) وہ بندہ جو وقت موجود میں، عمل کرنے میں اپنی سستی اور کاہلی کے باوجود مستقبل سے امیدیں وابستہ کرتا ہے، وہ اس سست اور کوتاہ اندیش آدمی کی طرح ہے جسے مستقبل میں پیش آنے والے امور پر قدرت رکھنے کا قطعی یقین ہے۔ اس کے لائق یہی ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر الگ ہوجائے اور جس امر کا ارادہ کیا ہے اور نفس کو اس پر آمادہ کرلیا ہے اسے نہ کرے۔ مناسب ہے کہ بندہ اپنے ارادے، اپنی فکر اور اپنی نشاط کو وقت موجود پر مجتمع کرے اور اپنی قدرت اور طاقت کے مطابق اپنے وظیفے کو ادا کرے۔ پھر جب بھی کوئی وقت آئے تو نشاط کو وقت موجود اور مجتمع بلند ارادے کے ساتھ کسی تفرقہ کے بغیر اپنے رب سے مدد طلب کرتے ہوئے اس کا استقبال کرے۔ پس یہ شخص اپنے تمام امور میں توفیق اور درسی عطا کیے جانے کا مستحق ہے۔