مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنذِرُوا مُعْرِضُونَ
ہم نے آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ہے سب چیزوں کو حقیقی مصلحت کی بنا پر اور ایک مقررہ مدت [٢] تک کے لئے پیدا کیا ہے اور جو کافر ہیں وہ اس چیز سے اعراض کرجاتے ہیں جس سے انہیں ڈرایا [٣] جاتا ہے۔
بنابریں فرمایا : ﴿ مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ ﴾ ” ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے، برحق پیدا کیا ہے، یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو عبث اور بے کار پیدا نہیں کیا بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ بندے ان کے خالق کی عظمت کو پہنچانیں اور اس کے کمال پر ان سے استدلال کریں اور تاکہ بندے جان لیں کہ وہ ہستی جس نے ان کو پیدا کیا ہے، وہ بندوں کو جزا و سزا کے لئے ان کے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے، نیز آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور ان کی بقا کا وقت ﴿ أَجَلٍ مُّسَمًّى ﴾ ” ایک مدت مقررہ تک“ معین ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت سے آگاہ فرمایا۔۔۔ اور وہ سب سے زیادہ سچی بات کہنے والا ہے۔۔۔ اس پر دلائل قائم کیے اور راہ حق کو روشن کردیا، تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ مخلوق میں سے ایک گروہ نے حق سے روگردانی کی اور انبیاء و رسل کی دعوت کو ٹھکرایا۔ فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنذِرُوا مُعْرِضُونَ ﴾ ” اور کافروں کی جس چیز کی نصیحت کی جاتی ہے، وہ اس سے اعراض کرلیتے ہیں“ اور رہے اہل ایمان، تو انہیں جب حقیقت حال کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے رب کی نصیحتوں کو قبول کرکے ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا اور اطاعت و تعظیم کے ساتھ ان کا سامنا کیا، لہٰذا وہ ہر بھلائی حاصل کرنے اور ہر برائی کو دور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔