سورة آل عمران - آیت 155

إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جس دن دونوں لشکروں کی مڈ بھیڑ ہوئی تو تم میں سے کچھ لوگ جو پسپا ہوئے تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ ان کی بعض لغزشوں کی بنا پر شیطان نے ان کے قدم ڈگمگا [١٤٨] دیئے تھے۔ بلاشبہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے کیونکہ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبار ک و تعالیٰ ان لوگوں کے احوال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جنہوں نے احد کے روز ہزیمت اٹھائی اور ان عوامل کی خبر دی جو ان کے فرار کا موجب بنے۔ نیز یہ کہ شیطان نے ان کو گمراہ کیا اور وہ ان کے بعض گناہوں کے سبب سے ان پر مسلط ہوگیا۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے شیطان کو در اندازی کی اجازت دی اور اپنی نافرمانیوں پر اسے اختیار دے دیا کیونکہ معصیت شیطان کی سواری اور اس کی در اندازی کا ذریعہ ہے۔ اگر وہ اپنے رب کی اطاعت کے ذریعے سے محفوظ رہنے کی کوشش کرتے تو شیطان کو ان پر کوئی اختیار نہ ہوتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ ﴾(بنی اسرائیل :17؍65) ” بے شک میرے جو بندے ہیں ان پر تیرا کوئی اختیار نہیں۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے ان لوگوں کو معاف کردیا جن سے یہ قابل مواخذہ فعل سر زد ہوا اور اگر وہ ان کا مواخذہ کرتا تو ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ﴿ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ﴾بے شک اللہ خطا کار گناہ گاروں کو توبہ و استغفار کی توفیق عطا کر کے اور ان کو مصائب میں مبتلا کر کے بخش دیتا ہے ﴿حَلِیْمٌ﴾ یعنی جو کوئی اس کی نافرمانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ وہ اسے توبہ و انابت کے لیے اپنی طرف بلاتا ہے اگر وہ توبہ کر کے اس کی طرف لوٹ آئے تو وہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اسے ایسے کردیتا ہے جیسے اس سے کوئی گناہ اور عیب صادر ہی نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و ثناء ہے۔