وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ
اور کہنے لگے : کیا ہمارے الٰہ اچھے ہوئے [٥٦] یا وہ (عیٰسی)؟ وہ آپ کے سامنے یہ مثال صرف کج بحثی کی خاطر لائے ہیں۔ بلکہ یہ ہیں ہی جھگڑالو [٥٧] قوم
﴿وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ﴾ ” اور کہنے لگے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا یہ ؟“ یعنی عیسیٰ علیہ السلام، کیونکہ تمام خود ساختہ معبودوں کی عبادت سے منع کیا گیا ہے اور ان سب کو جن کی یہ عبادت کرتے ہیں، وعید میں شامل کیا گیا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی نازل ہوا ہے : ﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ﴾(الانبیاء :21؍98) ” بے شک تم اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، سب جہنم کا ایندھن ہو اور تم سب اس میں داخل ہو کر رہو گے۔“ ان کی اس بے موقع دلیل کی توجیہ یہ ہے وہ کہتے ہیں کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے نزدیک یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ان مقرب بندوں میں سے ہیں جن کا انجام بہت اچھا ہے، پھر تو نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ہمارے معبودوں کو ان کی عبادت کی ممانعت میں برابر کیوں کر قرار دے دیا؟ اگر تیری دلیل باطل نہ ہوتی تو اس میں کوئی تناقض نہ ہوتا اور تو نے یہ کیوں کہا : ﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ﴾(الانبیاء :21؍98) ” ان کے زعم کے مطابق یہ حکم عیسیٰ علیہ السلام اور تمام بتوں کو شامل ہے، تب کیا یہ تناقص نہیں؟ اور دلیل کا تناقض دلیل کے بطلان پر دلالت کرتا ہے۔ یہ بعید ترین دلیل ہے جس کے ذریعے سے لوگ اس شبہے کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس پر یہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شور مچا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو خوشخبری دے رہے ہیں، حالانکہ شبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کمزور ترین اور باطل ترین شبہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی عبادت کی ممانعت اور بتوں کی عبادت کی ممانعت کو مساوی قرار دیا ہے اور چونکہ عبادت اللہ تعالقٰ کا حق ہے، مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے، انبیاء و مرسلین اور دیگر کوئی ہستی عبادت کی مستحق نہیں، اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت کی ممانعت اور دیگر خود ساختہ معبودوں کی عبادت کی ممانعت کے مساوی ہونے میں کون سا شبہ ہے؟