فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ
اس طرح اس نے اپنی قوم کو الو بنا لیا اور وہ اس کی بات مان گئے۔ وہ تو تھے ہی نافرمان [٥٣] لوگ
﴿ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ﴾’’پس بے وقوف بنایا اس نے اپنی قوم کو اور وہ اس کے کہنے میں آگ گئے۔“ یعنی فرعون نے اپنی قوم کے لوگوں کی عقل کو حقیر جانا اور یوں اس نے ان کے سامنے ان شبہات کا اظہار کیا جن کا کوئی فائدہ اور ان کی کوئی حقیقت نہیں، یہ شبہات حق پر دلالت کرتے تھے نہ باطل پر۔ یہ صرف کم عقل لوگوں کو متاثر کرسکتے تھے۔ مصر پر فرعون کے اقتدار اور اس کے محلات میں نہروں کے بہنے میں اس کے برحق ہونے کی کون سی دلیل ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان کی ثقالت، ان کے متبعین کی قلت اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سونے کے کنگنوں سے آراستوں نہ کرنے میں ان کی دعوت کے بطلان کی کون سی دلیل ہے؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ فرعون کو ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا جو معقولات سے بے بہرہ تھے، فرعون حق یا باطل جو کچھ بھی کہتا تھا وہ بے چون و چراں اسے مان لیتے تھے۔ ﴿ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ﴾ ” درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ۔“ پس ان کے فسق کے سبب سے ان پر فرعون کو مسلط کردیا گیا جو ان کے سامنے شرک اور شر کو مزین کرتا تھا۔