وَقَالُوا يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ
اور (ہر بار) وہ یہی کہتے : اے ساحر! تیرے پروردگار نے جو تجھ سے (دعا کی قبولیت) کا عہد کر رکھا ہے تو ہمارے لئے [٤٨] دعا کر، ہم ضرور راہ راست پر آجائیں گے
﴿ وَقَالُوا ﴾ یعنی ان پر عذاب نازل ہوتا تو کہتے : ﴿ يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ﴾ ” اے جادوگر !“ اس سے ان کی مراد موسیٰ علیہ السلام تھے ان کا یہ طرز خطاب یا تو استہزاء و تمسخر کے باب سے تھا یا یہ خطاب ان کے ہاں مدح تھا۔ پس انہوں نے عاجز آ کر موسیٰ علیہ السلام کو ایسے خطاب کے ساتھ مخاطب کیا جس کے ساتھ وہ ایسے لوگوں کو خطاب کرتے تھے جن کو وہ اہل علم سمجھتے تھے۔ یعنی جادوگروں کو پس وہ کہنے لگے : ﴿ يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ ﴾ ” اے جادوگر ! اس عہد کے مطابق جو تیرے رب نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر۔“ یعنی جس چیز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے تجھے خصوصیت بخشی اور فضائل و مناقب عطا کئے اس کے ذریعے سے دعا کر کہ اللہ ہم سے عذاب کو دور کر دے۔ ﴿ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ ﴾ اگر اللہ نے ہم سے عذاب کو ہٹا دیا تو ہم راہ راست اختیار کرلیں گے۔