أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
کیا آپ پر تیرے رب کی رحمت کو تقسیم کرنے والے [٣١] یہ لوگ ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کا سامان زیست ان کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور کچھ لوگوں کو دوسروں پر بدرجہا فوقیت بھی دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں اور آپ کے پروردگار کی رحمت [٣٢] اس چیز سے بہتر ہے کہ جو یہ جمع کر رہے [٣٣] ہیں
﴿ أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ﴾ یعنی کیا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانچی ہیں اور ان کے ہاتھ میں اس کی رحمت کی تدبیر ہے کہ جس کو چاہیں نبوت اور رسالت عطا کردیں اور جس کو چاہیں اس سے محروم کردیں؟ ﴿ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ ﴾ ” ہم نے ان میں سے ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے“ یعنی اس دنیاوی زندگی میں ﴿ وَ ﴾ ” اور“ حال یہ ہے کہ ﴿ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴾ ” آپ کے رب کی رحمت اس (دنیا)سے بہتر ہے جو یہ اکٹھی کر رہے ہیں۔ “ جب بندوں کی معیشت اور ان کا دنیاوی رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہی اسے اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کرتا ہے، اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق جس کو چاہتا ہے اس کے رزق کو کشادہ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کے رزق کو تنگ کردیتا ہے تو اس کی رحمت دینی جس میں سب سے اعلیٰ و افضل چیز نبوت اور رسالت ہے، اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہو۔ پس اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت سے کسے سرفراز فرمائے۔ پس معلوم ہوا کہ کفار کا اعتراض لغو اور ساقط ہے۔ تمام دینی اور دنیاوی معاملات کی تدبیر اکیلے اللہ تعالیٰ ہی کے دست قدرت میں ہے۔ یہ ان کے اعتراض کی غلطی پر توجہ دلانا ہے جو ان کے اختیار میں نہیں، یہ تو محض ان کا ظلم اور حق کو ٹھکرانا ہے۔ رہا ان کا یہ کہنا ﴿ لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ﴾ ” اگر وہ لوگوں کے حقائق اور انسانی صفات کی معرفت رکھتے جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے ہاں انسان کی بلند قدر و منزلت اور عظمت کا انداز ہ کیاجاتا ہے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں عظیم ترین قدر و منزلت کے حامل، فخر میں سب سے اعلیٰ، عقل میں سب سے کامل، علم میں سب سے بڑھ کر، رائے اور عزم و حزم میں جلیل ترین، اخلاق میں بہترین، آپ کی رحمت کا دامن وسیع ترین، سب سے زیادہ شفقت رکھنے والے، سب سے زیادہ ہدایت یافتہ اور سب سے زیادہ متقی ہیں۔ آپ دائرہ کمال کے مرکز اور انسانی اوصاف کی انتہائی بلندیوں پر فائز ہیں، آگاہ رہو ! کہ علی الاطلاق آپ ہی مرد کائنات ہیں۔ اس بات کو آپ کے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں، پس یہ مشرکین آپ پر کسی شخص کو کیوں کر فضیلت دے رہے ہیں جس میں ذرہ بھر یہ کمالات نہیں؟ اور اس کے جرم و حماقت کی انتہا یہ ہے کہ اس نے صنم، پتھر اور درخت کو اپنا معبود بنا لیا ہے،اس کی عبادت کرتا ہے، مصائب و حاجات میں اس کو پکارتا اور اس کا قرب حاصل کرتا ہے جو اس کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع، وہ کچھ عطا کرسکتا ہے نہ کسی چیز سے محروم کرسکتا ہے وہ سرا سر اپنے مالک (عابد) پر بوجھ ہے اور کسی ایسے شخص کا محتاج ہے جو اس کے مصالح کی دیکھ بھال کرے۔ کیا یہ بیوقوفوں اور پاگلوں کا فعل نہیں؟ ایسے شخص کو کیوں کر عظیم قرار دیا جاسکتا ہے؟ یا خاتم المرسلین اور بنی آدم کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیوں کر فضیلت دی جاتی ہے؟ لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے سمجھتے ہی نہیں۔ اس آیت کریمہ میں بندوں کی ایک دوسرے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فضیلت میں پنہاں اس کی حکمت کی طرف اشارہ ہے ﴿لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ﴾ ” تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے۔“ یعنی تاکہ وہ کاموں اور صنعت و حرفت میں ایک دوسرے سے خدمت لیں، اگر مال کے لحاظ سے تمام لوگ برابر ہوتے تو وہ ایک دوسرے کے محتاج نہ رہتے اور اس طرح ان کے بہت سے مصالح اور منافع معطل ہو کر رہ جاتے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ دینی نعمت دنیاوی نعمت سے بہتر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا: ﴿ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴾(یونس:10؍58) ” کہہ دیجیے کہ یہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہے، اسی پر ان کو خوش ہونا چاہئے یہ ان چیزوں سے بہتر ہے جن کو یہ جمع کرتے ہیں۔ “