سورة آل عمران - آیت 142

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے جبکہ ابھی تک اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں [١٢٩] اور صبر کرنے والے کون ہیں؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّـهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ ﴾ ” کیا تمہارا خیال ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے، جب کہ ابھی تک اللہ نے ان لوگوں کو بھی معلوم نہیں کیا جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں اور معلوم نہیں کیا ثابت قدم رہنے والوں کو؟“ یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ نہ سمجھ لینا اور نہ تمہارے دل میں یہ خیال آئے کہ تم کسی مشقت اور اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے لیے کوئی تکلیف اٹھائے بغیر جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ اس لیے کہ جنت بلند ترین منزل مقصود اور سب سے افضل مقام ہے جس کے حصول کے لیے مسابقت کی جاتی ہے۔ مطلوب و مقصو دجتنا زیادہ بڑا ہوگا وہاں تک پہنچانے والا وسیلہ اور عمل بھی اتنا ہی بڑا ہوگا۔ پس ایک راحت کو چھوڑ کر ہی دوسری راحت تک پہنچا جاسکتا ہے اور نعمت کو ترک کر کے ہی دوسری نعمت حاصل کی جاسکتی ہے۔