وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِن سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ
اور اگر ان ظالموں کو زمین کی ساری دولت میسر ہو اور اتنی اور بھی ہو تو وہ روز قیامت کے برے عذاب سے بچنے کے لئے فدیہ میں دینے [٦٣] کو تیار ہوجائیں گے۔ اس دن اللہ کی طرف سے ان کے لئے ایسا عذاب ظاہر ہوگا جو ان کے سان گمان میں بھی نہ ہوگا
اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ وہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا، مشرکین کے قول اور اس کی قباحت کا ذکر کیا۔ گویانفوس اس انتظار میں ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان کے لئے ﴿سُوءِ الْعَذَابِ﴾ سخت ترین اور بدترین عذاب ہے جس طرح وہ سخت ترین اور بدترین کفر کی باتیں کیا کرتے تھے۔ فرض کیا زمین کا تمام سونا، چاندی، جواہرات، اس کے تمام حیوانات، اس کے تمام درخت اور کھیتیاں، اس کے تمام برتن اور اثاثے اور اتنا ہی سب کچھ اور ان کی ملکیت ہو اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے خرچ کریں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان میں سے کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے کام نہیں آسکے گا۔ ﴿يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللّٰـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ﴾(الشعراء: 26؍88۔87) ” اس روز مال فائدہ دے گا نہ بیٹے، سوائے اس کے جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔“ ﴿وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللّٰـهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ﴾ ” اور ان پر اللہ کی طرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا انہیں خیال بھی نہ تھا۔“ یعنی اس بہت بڑی ناراضی کا تو انہیں گمان تک نہ تھا وہ تو اپنے بارے میں اس کے برعکس فیصلے کرتے رہے تھے۔