سورة الزمر - آیت 42

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرا نہ ہو اس کی روح نیند کی حالت میں قبض کرلیتا ہے پھر جس کی موت کا فیصلہ ہوچکا ہو اس کی روح کو تو روک لیتا ہے اور دوسری روحیں ایک مقررہ وقت تک کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں بہت سی [٥٨] نشانیاں ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اکیلا ہی بندوں پر، ان کی نیند اور بیداری میں، ان کی زندگی اور موت میں تصرف کرتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿اللَّـهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا﴾ ” اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے۔“ یہ وفات کبریٰ، موت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ خبر دینا کہ وہ وفات دیتا ہے اور فعل کی اپنی طرف اضافت کرنا، اس بات کے منافی نہیں کہ اس نے اس کام کے لئے ایک فرشتہ اور اس کے کچھ اعوان و مددگار مقرر کر رکھے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا : ﴿قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ﴾(السجدۃ:32؍11) ” کہہ دیجیے کہ موت کا فرشتہ تمہیں وفات دیتا ہے جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے“ نیز فرمایا : ﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ﴾ (الانعام:6؍61)” حتیٰ کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔“ اللہ تعالیٰ نے تمام امور کی اضافت اس اعتبار سے اپنی طرف کی ہے کہ وہی خلاق اور تدبیر کرنے والا ہے اور ان امور کو اس اعتبار سے ان کے اسباب کی طرف مضاف کرتا ہے کہ اس کی سنت اور حکمت ہے کہ اس نے ہر کام کا کوئی سبب مقرر فرمایا ہے۔ ﴿وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا﴾ ” اور اس جان کو بھی (عارضی وفات دیتا ہے) جو اپنی نیند میں نہیں مرتی۔“ اور یہ موت صغریٰ ہے یعنی وہ اس نفس کو روک رکھتا ہے جو نیند کے دوران حقیقی موت سے ہم کنار نہیں ہوتا ﴿فَيُمْسِكُ﴾ پھر ان دونفسوں میں سے اس نفس کو روک رکھتا ہے ﴿الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ﴾ ” جس کے بارے موت کا فیصلہ کردیتا ہے۔“ اس سے مراد وہ نفس ہے جس پر حقیقی موت وارد ہوتی ہے یا نیند کے دوران اس پر موت آتی ہے۔ ﴿وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ ” اور دوسرے نفس کو ایک مقررہ وقت تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے“ یعنی اس کے رزق اور مدت کی تکمیل تک کے لئے ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴾ ” بے شک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو (اس کے کامل اقتدار، مرنے کے بعد اس کی دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت پر) غور و فکر کرتے ہیں۔ “ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ روح اور نفس ایک جسم ہے اور بنفسہٖ قائم ہے۔ اس کا جوہر بدن کے جوہر سے مختلف ہے۔ یہ بھی مخلوق ہے، اللہ تعالیٰ کے دست تدبیر کے تحت ہے، وفات دینے، روک لینے اور چھوڑ دینے میں اللہ تعالیٰ کا اس پر تصرف ہے۔ زندوں کی اور مردوں کی ارواح عالم برزخ، میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتی ہیں وہ اکٹھی ہو کر آپس میں باتیں کرتی ہیں، پس اللہ زندوں کی ارواح کو چھوڑ دیتا ہے اور مردوں کی روحوں کو روک لیتا ہے۔