وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ
جو لوگ [٢٦] طاغوت کی عبادت کرنے سے بچتے رہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ان کے لئے بشارت ہے لہٰذا میرے بندوں کو بشارت [٢٧] دے دیجئے
اللہ تبارک و تعالیٰ مجرمین کا حال بیان کرنے کے بعد اپنی طرف رجوع کرنے والے بندوں کا حال بیان کرتے اور ان کے لئے ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا ﴾ ” اور وہ لوگ جو طاغوت کی عبادت کرنے سے بچتے رہے۔“ اس مقام پر طاغوت سے مراد، غیر اللہ کی عبادت ہے یعنی جنہوں نے غیر اللہ کی عبادت سے اجتناب کیا۔ یہ حکیم و علیم کی طرف سے بہترین احتراز ہے، کیونکہ مدح تو صرف اسی شخص کو پہنچتی ہے جو ان کی عبادت سے بچتا ہے ﴿وَأَنَابُوا إِلَى اللّٰـهِ﴾ اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اخلاص دین کے ذریعے سے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان کی فطرت کے داعیے بتوں کی عبادت کو چھوڑ کرلیتے ہیں۔ ﴿ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ﴾ ” ان کے لئے ایسی خوش خبری ہے“ جس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے اور صرف وہی لوگ اس سے واقف ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس خوش خبری سے سرفراز فرمایا ہے۔ اس میں دنیا کے اندر وہ بشارت بھی شامل ہے جو بندہ مومن کو ثنائے حسن، سچے خوابوں اور عنایت ربانی کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ انہیں اس بشارت کے اندر صاف دکھائی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اپنے بندوں کا اکرام چاہتا ہے۔ ان کے لئے موت کے وقت، قبر کے اندر اور قیامت کے روز خوش خبری ہے اور ان کے لئے اخرت بشارت وہ ہے جو رب کریم ان کو اپنی دائمی رضا، اپنے فضل و احسان اور جنت کے اندر امان کی صورت میں دے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان مومن بندوں کے لئے خوش خبری ہے تو اس نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ ان کو خوش خبری دے دیں اور وہ وصف بھی ذکر کردیا جس کی بنا پر وہ بشارت کے مستحق قرار پائے ہیں۔ ﴿بَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ﴾ ” پس میرے بندوں کو خوش خبری سنا دو، جو بات کو سنتے ہیں“ یہاں (الْقَوْلَ) ہر قسم کی بات کو شامل ہے۔ وہ بات کو سنتے ہیں تاکہ وہ امتیاز کرسکیں کہ کس بات کو ترجیح دی جائے اور کس بات سے اجتناب کیا جائے۔ یہ ان کا حزم و احتیاط اور عقل مندی ہے کہ وہ اس میں سے بہترین بات کی پیروی کرتے ہیں۔ بہترین کلام علی الاطلاق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر اسی سورۃ مبارکہ میں فرمایا : ﴿اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا﴾(الزمر:39؍23) ” اللہ نےبہترین کلام نازل کیا ہے ایک ایسی کتاب کی صورت میں جو ایک دوسرے کے مشابہ ہے۔ “ اس آیت کریمہ میں یہ نکتہ پنہاں ہے کہ جب ان ممدوح لوگوں کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس میں سے بہترین قول کا اتباع کرتے ہیں، تو گویا یہ کہا گیا ہے کہ آیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے سے بہترین کلام کی معرفت حاصل ہو؟ تاکہ ہم بھی عقل مندوں کی صفات سے متصف ہوجائیں اور جو کوئی اس صفت سے متصف ہو تو ہمیں پتا چل جائے کہ یہ عقلمندوں میں سے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ! بہترین کلام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے منصوص فرمایا : ﴿اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا﴾(الزمر :39؍23) ” اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے ایک ایسی کتاب کی صورت میں جو ایک دوسرے کے مشابہ ہے۔ “