قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ ۖ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ
کہنے لگا : ’’میں اس سے بہتر ہوں (کیونکہ) مجھے تو تو نے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے‘‘
﴿قَالَ﴾ ابلیس نے اپنے رب کی مخالفت کرتے اور نقض وارد کرتے ہوئے کہا: ﴿أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ﴾ ” میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔‘‘ ابلیس سمجھتا تھا کہ آگ کا عنصر مٹی کے عنصر سے بہتر ہے۔ یہ فاسد قیاس ہے، کیونکہ آگ کا عنصر شر، فساد، تکبر، طیش اور خفت کا مادہ ہے اور مٹی کا عنصر وقار، تواضع اور مختلف انواع کے شجر و نباتات کا مادہ ہے، مٹی آگ پر غالب ہے اسے بجھا دیتی ہے۔ آگ کسی ایسے مادے کی محتاج ہے جو اس کو قائم رکھے اور مٹی بنفسہ قائم ہے۔ یہ تھا کفار کے شیخ کا قیاس جس کی بنیاد پر اس نے اللہ تعالیٰ کے بالمشافہ حکم کی خلاف ورزی کی۔ اس قیاس کا بطلان اور فساد بالکل واضح ہے۔ جب ان کے استاد کے قیاس کا یہ حال ہے تو شاگردوں کا کیا حال ہوگا جو اپنے باطل قیاسات کے ذریعے سے حق کی مخالفت کرتے ہیں، ان کے قیاسات، اس قیاس کی نسبت زیادہ باطل ہیں۔