قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩
داؤد نے جواب دیا کہ اس شخص نے تیری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملانے کے لئے اس کا سوال کرکے تجھ پر ظلم کیا ہے۔ اور اکثر خلیط [٢٨] ایک دوسرے پر زیادتی [٢٩] کرتے ہی رہتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایماندار ہوں اور نیک عمل کرتے ہوں اور ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ اب داؤد کو خیال آیا کہ (اس مقدمہ سے) دراصل ہم نے اس کی آزمائش [٣٠] کی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے پروردگار سے معافی مانگی اور رکوع میں گر گئے اور اس کی طرف رجوع [٣١] کیا۔
جب داؤد علیہ السلام نے اس کی بات سنی۔۔۔ فریقین کی باتوں کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا تھا کہ فی الواقع ایسا ہوا ہے، اس لئے حضرت داؤد علیہ السلام نے ضرورت نہ سمجھی کہ دوسرافریق بات کرے، لہٰذا اعتراض کرنے والے کے لئے اس قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے فریق ثانی کا موقف سننے سے پہلے فیصلہ کیوں کیا؟۔۔۔ تو فرمایا : ﴿ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ﴾ ” یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملا لے، بے شک تجھ پر ظلم کرتا ہے۔“ اکثر ساتھ اور مل جل کر رہنے والوں کی یہی عادت ہے، بنا بریں فرمایا : ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ﴾ ” اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں۔“ کیونکہ ظلم کرنا نفوس کا وصف ہے : ﴿إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے۔“ کیونکہ انہیں ایمان اور عمل صالح کی معیت حاصل ہوتی ہے جو انہیں ظلم سے باز رکھتے ہیں ﴿وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ﴾ ” اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ﴾’’اور میرے بندوں میں کم لوگ ہی شکر گزار ہوتے ہیں۔ “ ﴿وَظَنَّ دَاوُودُ ﴾ جب حضرت داؤد علیہ السلام نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ کیا تو آپ سمجھ گئے کہ ﴿أَنَّمَا فَتَنَّاهُ ﴾ ہم نے حضرت داؤد علیہ السلام کی آزمائش کے لئے یہ مقدمہ بنا کر انکے سامنے پیش کیا ہے۔ ﴿فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ﴾ جب آپ سے لغزش سر زد ہوئی تو آپ نے اپنے رب سے بخشش طلب کی ﴿وَخَرَّ رَاكِعًا ﴾ ” اور جھک کر گرپڑے۔“ یعنی سجدے میں گر پڑے ﴿وَأَنَابَ ﴾ اور سچی توبہ اور عبادت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔