وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ
اور ان کے سردار چل کھڑے ہوئے (اور کہنے لگے کہ) ’’چلو اور اپنے خداؤں کی عبادت [٥] پر ڈٹے رہو۔ یہ بات تو کسی اور ہی ارادہ [٦] سے کہی جارہی ہے‘‘
﴿ وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ﴾ یعنی شرفائے قوم، جن کی بات مانی جاتی تھی، اپنی قوم کو شرک پر جمے رہنے پر آمادہ کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے نکلے: ﴿أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ﴾ یعنی اپنے معبودوں کی عبادت پر ڈٹے رہنے کی کوشش کرو، کوئی تمہیں ان کی عبادت سے روک نہ دے ﴿إِنَّ هَـٰذَا﴾ یہ جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بتوں کی عبادت سے روکتے ہیں ﴿ لَشَيْءٌ يُرَادُ ﴾ ” یہ وہ چیز ہے جو مقصود ہے۔“ یعنی اس بارے میں اس کا مقصد اور نیت درست نہیں۔ یہ شبہ احمقوں کے ذہن ہی میں جگہ پاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی حق یا باطل چیز کی طرف دعوت دیتا ہے تو اس کی نیت میں جرح و قدح کرتے ہوئے اس کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی نیت اور اس کا عمل اسی کے لئے ہے۔ اس کی دعوت کو صرف ان دلائل و براہین کے ذریعے سے رد کیا جاسکتا ہے جو اس کا فساد واضح کر کے اس کا ابطال کرسکیں اور ان کا مقصد تو صرف یہ بتانا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف اس لئے دعوت دیتے ہیں کہ وہ تمہارے سردار، تمہارے بڑے اور تمہارے قائد بن جائیں۔