وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ
وہ ہمارے لئے تو مثال بیان کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے، کہتا ہے کہ : ’’ہڈیاں جب بوسیدہ ہوچکی ہوں گی تو انہیں کون زندہ [٧٠] کرے گا ؟‘‘
﴿وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلاً﴾ ’’اور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی۔‘‘ كسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس قسم کی مثال بیان کرے اور وہ ہے خالق کی قدرت کا مخلوق کی قدرت کے ساتھ قیاس کرنا، نیز یہ قیاس کرنا کہ جو چیز مخلوق کی قدرت سے بعید ہےوہ خالق کی قدرت سے بھی بعید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿قَالَ﴾یعنی اس انسان نے کہا: ﴿مَنْ يُحْيِ العِظَامَ وَ هِيَ رَمِيْمٌ﴾یعنی کیا کوئی ایسی ہستی ہے جو ان ہڈیوں کو زندہ کرے گی؟ یہ استفہام انکاری ہے یعنی کوئی ہستی ایسی نہیں ہے جو ان ہڈیوں کے بوسیدہ اور معدوم ہو جانے کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کر سکے۔ شبہ اور مثال کا یہی پہلو ہے کہ یہ معاملہ بشر کی قدرت سے بہت بعید ہے۔ یہ قول جو انسان سے صادر ہوا ہے اس کی غفلت پر مبنی ہے، نیز وہ اپنی تخلیق کی ابتدا کو بھول گیا ہے۔ اگر وہ اپنی تخلیق غور کرتا کہ کیسے اس کو پیدا کیا گیا جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا تو وہ اعادہ تخلیق کو عیاں پاتا اور یہ مثال بیان نہ کرتا۔