أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
کیا انسان دیکھتا نہیں کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ہے پھر وہ (حقائق سے اعراض کرکے) صریح [٦٩] جھگڑالو بن گیا۔
ان آیات کریمہ میں، منکرین قیامت کے شبہات اور ان کے مکمل، بہترین اور واضح جواب کا ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ﴾ کیا قیامت کا منکر اور اس میں شک کرنے والا انسان اس معاملے پر غور نہیں کرتا جو اسے قیامت کے وقوع کے بارے میں یقین کامل عطا کرے اور وہ معاملہ اس کی تخلیق کی ابتدا ہے ﴿مِن نُّطْفَةٍ﴾ ” نطفے سے“ پھر آہستہ آہستہ مختلف مراحل میں منتقل ہوتا ہے حتیٰ کہ بڑا ہو کر جو ان ہوجاتا ہے اور اس کی عقل کا مل اور درست ہوجاتی ہے ﴿فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ ﴾’’’تو یکایک وہ صریح جھگڑا لو بن بیٹھتا ہے۔“ اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے نطفے سے اس کی تخلیق کی ابتد اکی۔ اسے ان دو حالتوں کے تفاوت پر غور کرنا چاہئے اور اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ہستی جو اسے عدم سے وجود میں لائی ہے زیادہ قدرت رکھتی ہے کہ اس کے مرنے اور ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جانے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کرے۔