وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ
پھر ان کے لئے ایسی ہی اور چیزیں پیدا [٤١] کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔
﴿وَخَلَقْنَا لَهُم﴾ ” اور ہم نے ان کے لئے پیدا کیں۔“ یعنی موجود اور آنے والے لوگوں کے لئے ﴿مِّن مِّثْلِهِ﴾ ” ویسی ہی“ اس کشتی جیسی یعنی اس کی جنس میں سے ﴿ مَا يَرْكَبُونَ﴾ ” جس پر یہ سواری کرتے ہیں۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے آباؤ اجداد پر اپنی نعمت کا ذکر فرمایا کہ اس نے ان کو کشتی میں سوار کرایا۔ ان پر نعمت کا فیضان گویا اولاد پر نعمت کا فیضان ہے۔ تفسیر کے اعتبار سے یہ مقام میرے لئے مشکل ترین مقام ہے کیونکہ بہت سے مفسرین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ یہاں ” ذریت“ سے مراد آباؤ اجداد ہیں، مگر قرآن کریم میں ذریت کا آباؤ اجداد پر اطلاق کہیں نہیں آتا، بلکہ یہ مفہوم لینے میں ابہام اور کلام کو اس کے موضوع سے ہٹانا ہے جس کا رب العالمین کا کلام انکار کرتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ اپنے بندوں کے سامنے ایضاح و بیان ہے۔ یہاں ایک اور احتمال بھی ہے جو اس سے بہتر ہے اور یہ ہے کہ یہاں ” ذریت“ سے مراد جنس ہے یعنی اس سے مراد وہ خود ہیں، کیونکہ وہی آدم کی ذریت ہیں، مگر یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متناقض ہیں۔ ﴿وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ﴾ ” اور ان کے لئے اسی جیسی اور چیزیں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوجاتے ہیں۔‘‘ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ ہم نے اس کشتی جیسی کشتی تخلیق کی، یعنی ان مخاطبین کے لئے جو مختلف انواع کی کشتیوں پر سوار ہوتے ہیں۔۔۔ تو یہ معنی کا تکرار ہے، قرآن کریم کی فصاحت اس سے انکار کرتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ﴿وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ﴾ سے اونٹ مراد لئے جائیں جو صحرا کے جہاز ہیں تو معنی نہایت درست اور واضح ہیں۔۔۔ البتہ اس معنیٰ کے مطابق بھی کلام میں تشویش باقی رہ جاتی ہے، کیونکہ اگر یہ معنی مراد ہوتے تو اللہ یوں ارشاد فرماتا: ( أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ) ” اور ان کے لئے نشانی یہ ہے کہ ہم نے انہیں بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا اور ان کے لئے اسی جیسی دوسری چیزیں پیدا کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔“ رہا پہلی آیت کریمہ میں یہ فرمانا کہ ہم نے ان کی اولاد کو سوار کیا اور دوسری آیت کریمہ میں یہ فرمانا کہ ہم نے انہیں سوار کیا، تو اس سے معنی واضح نہیں ہوتے۔ سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ ضمیر (ذُرِّیَة) کی طرف لوٹتی ہو اور حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ جب میں یہاں تک لکھ چکا تو مجھ پر ایک مطلب ظاہر ہوا جو اللہ تعالیٰ کی مراد سے بعید نہیں، جو کوئی کتاب اللہ کے جلال اور ہر لحاظ سے حال، ماضی اور مستقبل کے امور کے لئے اس کے بیان کامل کی معرفت رکھتا ہے، نیز وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ وہ معنی ذکر کرتا ہے جو اپنے احوال میں کامل ترین معنی ہوں۔ کشتی اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی اور اس کے بندوں کے لئے اس کی نعمت ہے۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو کشتی کی نعمت اور اس کی تعلیم سے نوازا ہے اس وقت سے لے کر روز قیامت اور قرآن کے مخاطبین کے زمانے تک، ہر زمانے میں کشتی موجود رہی ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو قرآن کے ذریعے سے مخاطب کیا اور کشتی کا حال بیان کیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ ان مخاطبین کے زمانے کے بعد ایسی ایسی کشتیاں ایجاد ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیاں ہوں گی اور اللہ تعالیٰ ان کو بحری، بادبانی اور بھاپ سے چلنے والی، فضا میں پرندوں کے مانند تیرنے والی کشتیوں اور خشکی پر چلنے والی سواریوں کی صنعت کی تعلیم دے گا اور یہ عظیم نشانی صرف ان کی ذریت کے زمانے ہی میں پائی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے کتاب کریم میں اپنی نشانیوں کی تمام انواع میں سے اعلیٰ ترین نشانی کی طرف اشارہ کیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَآيَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ﴾ ” اور ان کے لئے ایک نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔“ یعنی سواریوں اور سامان سے بھری ہوئی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان سواریوں پر سوار کرایا اور ان اسباب کے ذریعے سے ان کو ڈوبنے سے بچایا جو اس نے انہیں سکھائے تھے۔