إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ
بلاشبہ ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں [١٢]۔ ہم ان کے وہ اعمال بھی لکھتے جاتے ہیں جو وہ آگے بھیج چکے اور وہ آثار بھی جو پیچھے [١٣] چھوڑ گئے۔ اور ہم نے ہر چیز کا ایک واضح کتاب [١٤] (لوح محفوظ) میں ریکارڈ رکھا ہوا ہے۔
﴿ إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ ﴾ یعنی ہم انہیں، ان کے مرجانے کے بعد، دوبارہ زندہ کریں گے تاکہ ہم انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیں۔ ﴿ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا ﴾ ” اور ہم لکھتے ہیں وہ اعمال جن کو وہ آگے بھیجتے ہیں“ اچھے اور برے اعمال میں سے۔ اس سے مراد وہ اعمال ہیں جو وہ اپنی زندگی کے دوران کرتے رہے ہیں۔ ﴿ وَآثَارَهُمْ ﴾ اس سے مراد وہ آثار خیر اور آثار شر ہیں جنہیں وہ اپنی زندگی میں اور مرنے کے بعد وجود میں لانے کا سبب بنے۔ ان اعمال نے ان کے اقوال، افعال اور احوال سے جنم لیا۔ بھلائی کا ہر وہ کام آثار خیر میں شمار ہوتا ہے جو بندے کے علم، اس کی تعلیم، خیر خواہی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کے سبب سے وجود میں آتا ہے یا وہ علم جسے وہ اپنے متعلمین میں ودیعت کرتا ہے یا اس کی تحریر کے سبب سے وجود میں آتا ہے جس سے اس کی زندگی میں یا اس کے مرنے کے بعد فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا کوئی نیک عمل جسے بندہ سرانجام دیتا ہے مثلاً نماز، صدقہ، یا کوئی بھلی بات جس کی دوسرے لوگ پیروی کریں، یا کسی مسجد کی تعمیر، یا کسی ایسی جگہ کی تعمیر جس سے لوگ استفادہ کرتے ہوں یا اس قسم کے دیگر کام، یہ سب آثار خیر میں شمار ہوتے ہیں جن کو اس کے لئے لکھ لیا جاتا ہے اور اسی طرح آثار شر ہیں، جن کولکھ لیا جاتا ہے۔ بنا بریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ)) [ صحیح مسلم، الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ۔۔۔، ح :1017]” جس نے دین اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کا اجر اسے عطا ہو گا اور اس کے بعد جو کوئی بھی اس پر عمل کرے گا اس کا اجر بھی ان کے اجروں میں کمی کرنے کے بغیر اسے ملے گا۔ جس کسی نے دین اسلام میں کسی برائی کو رواج دیا اس کا گناہ اس کو ملے گا اور ان لوگوں کا گناہ بھی اس کی گردن پر ہوگا جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے جب کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ “ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور ہر طریقے اور ذریعے سے اس کی طرف جانے والے راستے کی نشاندہی کرنے کی عظمت واضح ہوجاتی ہے۔ برائی کی طرف دعوت دینے اور اس کو رائج کرنے والا سب سے گھٹیا مخلوق، سب سے بڑا مجرم اور سب سے زیادہ گناہوں کا بوجھ اٹھانے والا ہے۔ ﴿وَكُلَّ شَيْءٍ﴾ ” اور ہر چیز کو“ یعنی اعمال اور نیتوں وغیرہ کو ﴿أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ ﴾ ” ہم نے ایک واضح کتاب میں درج کر رکھا ہے“ اس سے مراد (اُمُّ الکُتُب) ہے وہ تمام کتابیں، جو فرشتوں کے ہاتھوں میں ہیں، اسی کی طرف لوٹتی ہیں اور وہ لوح محفوظ ہے۔