وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ
نہ تو نابینا اور بینا برابر ہوسکتے ہیں،
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ حکمت الٰہی اور اس نے اپنے بندوں کو فطرت عطا کی ہے، ان کے لحاظ سے اضداد برابر نہیں ہوتیں، فرمایا: ﴿وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ﴾ ” اور نہیں ہے برابر اندھا“ جس کی بینائی نہیں۔ ﴿وَالْبَصِيرُ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ﴾ ” اور دیکھنے والا، نہ اندھیرے اور روشنی، نہ سایہ اور دھوپ (برابر ہیں) اور نہ زندے اور مردے یکساں ہوتے ہیں۔“ جیسا کہ تمہارے نزدیک بھی یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت اور کسی شک و شبہ ہے سے پاک ہے کہ مذکورہ بالا تمام چیزیں برابر نہیں ہیں، تب تمہیں یہ حقیقت بھی معلوم ہونی چاہئے کہ معنوی طور پر متضاد اشیا میں عدم مساوات زیادہ اولیٰ ہے۔ پس مومن اور کافر برابر نہیں ہیں، نہ ہدایت یافتہ اور گمراہ برابر ہیں، نہ عالم اور جاہل برابر ہیں، نہ اہل جنت اور اہل جہنم برابر ہیں، نہ زندہ دل اور مردہ دل برابر ہیں۔ ان مذکورہ اشیا کے درمیان اتنا فرق اور اس قدر تفاوت ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جب تمام اشیا کے مراتب معلوم ہوگئے اور ان کے درمیان امتیاز واقع ہوگیا اور وہ اشیا اپنی اضداد میں سے واضح ہوگئیں جن کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہیے ، تو ایک دور اندیش اور عقل مند شخص کو اپنے لئے وہی چیز منتخب کرنی چاہئے جو بہتر اور ترجیح دیئے جانے کی مستحق ہے۔