قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ
آپ کہئے کہ حق آگیا اور باطل [٧٤] نے تو نہ پہلی بار کچھ پیدا کیا تھا نہ دوبارہ کچھ کرسکے گا۔
لہٰذا وہ اپنے بندوں کو ان دلائل کا علم عطا کر کے ان کو ان کے سامنے خوب واضح کردیتا ہے، اس نے فرمایا : ﴿قُلْ جَاءَ الْحَقُّ﴾ ” کہہ دیجیے : حق آگیا ہے“ یعنی وہ ظاہر، واضح اور سورج کی مانند روشن ہوگیا اور اس کی دلیل غالب آگئی ہے۔ ﴿وَمَا يُبْدِئُ ا لْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ ﴾ ” اور باطل نہ تو پہلی بار پیدا کرسکتا ہے نہ دوبارہ پیدا کرے گا۔“ یعنی اس کے ہتھکنڈے مضمحل ہو کر باطل اور اس کے دلائل سرنگوں ہوگئے۔ باطل( یعنی کوئی خود ساختہ معبود )کسی کو پیدا کرسکتا ہے نہ مرنے کے بعد زندگی کا اعادہ کرسکتا ہے۔ جب حق واضح ہوگیا، جس کی طرف رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت دی تھی اور آپ کو جھٹلانے والے آپ پر گمراہی کا بہتان لگاتے تھے، تو آپ نے ان کو حق سے آگاہ کر کے حق کو ان کے سامنے واضح کردیا اور ان پر ثابت کردیا کہ وہ حق کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں۔ آپ نے ان کو یہ بھی بتا دیا کہ ان کا آپ کو گمراہ کہنا حق کو کوئی نقصان دے سکتا ہے نہ دعوت حق کسی کے روکے رکتی ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مَعَاذَ اللہِ) گمراہ ہیں، حالانکہ آپ اس سے پاک اور منزہ ہیں، تاہم اگر بحث میں برسبیل تنزل تمہاری بات کو صحیح مان لیں۔ تو آپ کی گمراہی آپ کے لئے ہے یعنی آپ کی گمراہی کا تعلق صرف آپ کے ساتھ ہے، دوسروں پر اس کا کوئی اثر نہیں۔