وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بشارت دینے والا [٤٣] اور ڈرانے والا ہی بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے [٤٤] نہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف اس لئے مبعوث فرمایا کہ تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ثواب کی خوش خبری دے اور انہیں ان اعمال سے آگاہ کرے جو اس ثواب کے موجب ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائے اور انہیں ان اعمال سے آگاہ کرے جو اس عذاب کے موجب ہیں اور آپ کا اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔ اہل تکذیب اور اہل عناد آپ سے جن معجزوں کا مطالبہ کرتے ہیں وہ آپ کے فرائض میں شامل نہیں ہیں بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ ﴿ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ یعنی ان کے پاس صحیح علم نہیں ہے، بلکہ یہ لوگ یا تو جاہل ہیں یا عناد رکھتے ہیں اور اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتے، تب ان کا حال یہ ہے کہ گویا ان کے پاس علم ہی نہیں۔ جن کے پاس علم نہ ہو، ان کا رسول سے معجزے کا مطالبہ پورا نہ ہونا، رسول کی دعوت کو ٹھکرانے کا موجب ہوتا ہے۔ انہوں نے جن چیزوں کا مطالبہ کیا تھا ان میں سے ایک عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ تھا جس سے انہیں ڈرایا گیا تھا۔