قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
آپ ان سے پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین سے تمہیں کون رزق دیتا ہے؟ آپ کہئے کہ اللہ (ہی رزق دیتا ہے) اور ہم میں [٣٩] اور تم میں سے ایک فریق ہی ہدایت پر یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ان سے ان کے شرک کی صحت کی دلیل طلب کرتے ہوئے کہہ دیجیے !﴿ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ” آسمانوں اور زمین سے تمہیں رزق کون فراہم کرتا ہے؟“ تو وہ لازمی طور پر اقرار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ انہیں رزق مہیا کرتا ہے اگر وہ اس حقیقت کا اقرار نہ کریں تو ﴿قُلِ اللّٰـهُ﴾ ” کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ رزق عطا کرتا ہے۔ “ آپ ایک بھی ایسا شخص نہ پائیں گے جو اس بات کو رد کرسکے۔ جب یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے جو زمین و آسمان سے تمہیں رزق عطا کرتا ہے، وہ تمہارے لئے آسمان سے بارش برساتا ہے، وہ تمہارے لئے نباتات اگاتا ہے، وہ تمہارے لئے دریاؤں کو جاری کرتا ہے، وہ درختوں پر تمہارے لئے پھل اگاتا ہے، اس نے تمام حیوانات کو تمہارے رزق اور تمہاری دیگر منفعتوں کے لئے تخلیق فرمایا۔ پھر تم اس کے ساتھ ان ہستیوں کی کیوں عبادت کرتے ہو جو تمہیں رزق عطا کرسکتی ہیں نہ کوئی نفع پہنچا سکتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴾ یعنی ہم دونوں گروہوں میں سے ایک گروہ ہدایت پر یا واضح گمراہی میں غرق ہے۔ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس پر حق ظاہر اور صواب واضح ہو، جسے اپنے موقف کے حق ہونے اور اپنے مخالف کے موقف کے بطلان کا یقین ہو۔ ہم نے وہ تمام دلائل واضح کردیئے ہیں جو ہم پیش کرتے ہیں اور جو تم پیش کرتے ہو۔ جن سے کسی شک کے بغیر یقینی علم حاصل ہوجاتا ہے کہ ہم میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون ؟ کون ہدایت یافتہ ہے اور کون گمراہ ؟ حتی کہ اس کے بعد تعیین ایسے ہوجاتی ہے جس میں کوئی فائدہ نہیں۔ اگر آپ اس شخص کے درمیان۔۔۔ جو اس اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتا ہے جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا، جو ان میں ہر قسم کا تصرف کرتا ہے، جو ہر قسم کی نعمت عطا کرتا ہے، جس نے ان کو رزق مہیا کیا، ان تک ہر قسم کی نعمت پہنچائی، ان سے ہر برائی کو دور کیا۔ تمام حمد و ثنا اسی کے لئے ہے، تمام فرشتے اور ان سے کم تر مخلوق اس کی ہیبت کے سامنے سرنگوں ہیں اور اس کی عظمت کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے ہیں، تمام سفارشی اس سے خائف ہیں، ان میں سے کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکتا جو اپنی ذات میں اور اپنے اوصاف وا فعال میں بہت بلند اور بہت بڑا ہے، جو ہر قسم کے کمال، جلال اور جمال کا مالک ہے، جو ہر قسم کی مجد اور حمد و ثنا کا مستحق ہے، وہ اس ہستی کے تقرب کے حصول کی دعوت دیتا ہے جس کی یہ شان ہے، اس کے لئے اخلاص عمل کا حکم دیتا ہے، اس کے سوا دیگر ہستیوں کی عبادت سے روکتا ہے۔۔۔ اور اس شخص کے درمیان موازنہ کریں جو خود ساختہ معبودوں، بتوں اور قبروں کے تقرب کے حصول کی کوشش کرتا ہے، جو کوئی چیز پیدا کرسکتے ہیں نہ رزق دے سکتے ہیں، وہ خود اپنی ذات کے لئے کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی اختیار رکھتے ہیں نہ اپنے عبادت گزاروں کے لئے، بلکہ یہ تو جمادات اور پتھر ہیں جو عقل رکھتے ہیں نہ اپنے عبادت گزاروں کی پکار کو سنتے ہیں، اگر سن بھی لیں تو ان کو جواب نہیں دے سکتے۔ قیامت کے روز یہ ان کے شرک کا انکار اور ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے، ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ ہے نہ شراکت اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ان کی سفارش کرسکتے ہیں۔ یہ شخص اس ہستی کو پکارتا ہے، جس کا مذکورہ بالا وصف ہے، امکان بھر اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس شخص کے ساتھ عداوت رکھتا اور اس کے ساتھ جنگ کرتا ہے جو دین میں اخلاص کا حامل ہے اور وہ اللہ کے رسولوں کی تکذیب کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کی دعوت دیتے ہیں۔۔۔ تو آپ پر واضح ہوجائے گا کہ فریقین میں سے کون ہدایت یافتہ اور کون گمراہ ہے، کون نیک بخت اور کون بدبخت ہے۔ اس بات کی حاجت نہیں کہ اس کو بیان کرنے کے لئے آپ کی کوئی مدد کرے کیونکہ زبان حال زبان مقال سے زیادہ واضح اور زیادہ فصیح ہے۔