وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ
اس کے ہاں صرف اس کی سفارش فائدہ دے سکتی ہے جس کے لئے وہ خود اجازت دے [٣٧]۔ حتی کہ جب لوگوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوگی تو وہ پوچھیں گے کہ ''تمہارے [٣٨] پروردگار نے کیا جواب دیا ؟'' وہ کہیں گے کہ ٹھیک جواب ملا ہے۔ اور وہ عالی شان اور سب سے بڑا ہے۔
باقی رہی شفاعت تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی نفی فرما دی، فرمایا : ﴿وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ﴾ ” اور اس کے ہاں سفارش فائدہ نہیں دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔“ یہ وہ تعلقات اور تمام امیدوں کو منقطع کردیا اور ان کے بطلان کو اچھی طرح واضح کر کے شرک کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ چونکہ مشرک غیر اللہ کی عبادت صرف اس لئے کرتا ہے کہ اسے غیر اللہ سے کسی نفع کی امید ہوتی ہے اور یہی امید شرک کی موجب ہوتی ہے تو جب یہ معلوم ہوجائے کہ وہ ہستی، جسے یہ اللہ کے سوا پکارتا ہے، کسی نفع و نقصان کی مالک ہے نہ مالک کی ملکیت میں شریک ہے، نہ اس کی معاون اور مددگار ہے اور نہ وہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکتی ہے تو اس کا یہ پکارنا اور اس کی یہ عبادت عقل کے مطابق گمراہی اور شرع کے مطابق باطل ہے۔ اس کے برعکس مشرک کو اس سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ اس کے مقصود مطلوب کے بالکل الٹ ہوتی ہے۔ مشرک ان خود ساختہ معبودوں کے ذریعے سے نفع چاہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس نفع کا بطلان اور اس کا معدوم ہونا واضح کردیا ہے اور بعض دیگر آیات میں ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرنے والے کے لئے ان کے ضرر کو بیان کردیا ہے۔ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ قیامت کے روز یہ ایک دوسرے کا انکار کریں گے ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ فرمایا : ﴿وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ﴾ (الاحقاف :46؍6) ’’اور جب تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو وہ اپنی عبادت کرنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔“ بڑی عجیب بات ہے کہ مشرک آدمی تکبر و استکبار کی وجہ سے رسولوں کی اطاعت اس گمان سے نہیں کرتا کہ وہ بشر ہیں اور اس کا حال یہ ہے کہ وہ شجر و حجر کو پکارتا ہے اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے، محض تکبر کی بنا پر رحمان کے لئے اخلاص نہیں رکھتا مگر اپنے بدترین دشمن شیطان کی اطاعت کرتے ہوئے ان ہستیوں کی عبادت پر راضی ہوجاتا ہے جن کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے۔ ﴿حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾ ” حتیٰ کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وہ بلند و بالا اور بہت بڑا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہ احتمال موجود ہے کہ اس مقام پر ضمیر مشرکین کی طرف لوٹتی ہو کیونکہ آیت کریمہ میں لفظاً وہی مذکور ہیں اور ضمائر کے بارے میں قاعدہ بھی یہی ہے کہ یہ اپنے قریب ترین مذکور کی طرف لوٹتی ہیں تب اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ قیامت کے روز جب مشرکین کی گھبراہٹ دور ہوگی اور انہیں ہوش آئے گا تو ان سے دنیا میں ان کے احوال کے بارے میں سوال کیا جائے گا، حق لانے والے رسولوں کی تکذیب کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا تو وہ اقرار کریں گے کہ کفر اور شرک پر مبنی ان کا موقف باطل تھا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اور انبیاء و مرسلین نے اس کے بارے میں خبر دی تھی وہی حق تھا۔ تو اس سے پہلے جو کچھ وہ چھپایا کرتے تھے سب ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گا اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ حق تو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ ﴿وَهُوَ الْعَلِيُّ﴾ وہ بذات تمام مخلوقات کے اوپر ہے، وہ ان پر غالب ہے اور وہ اپنی عظیم اور جلیل القادر صفات کی بنا پر عالی قدر ہے۔ ﴿الْكَبِيرُ﴾ وہ اپنی ذات و صفات میں بہت بڑا ہے۔ یہ اس کی بلندی ہے کہ اس کا حکم سب پر غالب ہے نفوس اس کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں حتیٰ کہ مشرکین و متکبرین کے نفوس بھی سرافگندہ ہیں۔ یہ معنی زیادہ واضح ہے اور یہی وہ معنی ہے جس پر سیاق کلام دلالت کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ضمیر ملائکہ کی طرف لوٹتی ہو، یعنی جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے کلام فرماتے ہیں اور فرشتے اسے سنتے ہیں تو وہ غش کھا کر سجدے میں گر جاتے ہیں، پھر سب سے پہلے جبریل سر اٹھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ جو ارادہ فرماتے ہیں اس کے بارے میں ان سے وحی کے ذریعے سے کلام کرتے ہیں۔ جب فرشتوں کی مدہوشی دور اور ان کی گھبراہٹ زائل ہوجاتی ہے تو وہ کلام الٰہی کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں جس کی بنا پر ان پر غشی طاری ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حق ارشاد فرمایا : یہ بات وہ یا تو اجمالی طور پر کہتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کے سوا کچھ نہیں کہتے یا وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں بات ارشاد فرمائی ہے۔ یہ اس کلام کی وجہ سے کہتے ہیں جو انہوں نے اس سے سنا ہے اور یہ سب حق ہے۔ تب اس احتمال کے مطابق معنی یہ ہوگا کہ مشرکین جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کی جن کے عجز اور نقص کے بارے میں ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ وہ کسی بھی لحاظ سے کسی کو کوئی نفع نہیں دے سکتے تو ان کفار نے رب عظیم کی عبادت میں اخلاص سے کیسے انحراف کیا، جو بلند اور بہت بڑا ہے جس کی عظمت و جلال کا یہ حال ہے کہ بڑے بڑے مکرم اور مقرب فرشتے، اس کا کلام سن کر خشوع و خضوع کی بنا پر غش کھا کر گر پڑتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ ان مشرکین کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ تکبر سے اس ہستی کی عبادت سے انکار کرتے ہیں جس کی عظمت، اقتدار، تسلط اور شان کا یہ حال ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے شرک اور ان کے کذب و بہتان طرازی سے بلند و بالا ہے۔