وَمَا كَانَ لَهُ عَلَيْهِم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِي شَكٍّ ۗ وَرَبُّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ
حالانکہ ابلیس کا ان پر کچھ زور نہیں [٣٤] تھا (اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا) تاکہ ہم معلوم کرلیں کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس بارے میں شک میں پڑا رہتا ہے اور آپ کا پروردگار ہر چیز [٣٥] پر نگران ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا كَانَ لَهُ ﴾ ” اور نہیں ہے اس کو“ یعنی ابلیس کو ﴿عَلَيْهِم مِّن سُلْطَانٍ ﴾ ” ان پر کوئی غلبہ۔“ یعنی شیطان کو کوئی تسلط اور غلبہ حاصل ہے نہ وہ کسی کو اپنے ارادے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کرسکتا ہے لیکن یہ تو اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جو شیطان کے تسلط اور بنی آدم کو گمراہ کرنے میں اس کی فریب کاری کا تقاضا کرتی ہے۔ ﴿ لِنَعْلَمَ مَن يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِي شَكٍّ﴾ ” تاکہ ہم معلوم کرلیں کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس بارے میں شک میں پڑا ہوا ہے۔“ تاکہ امتحان کا بازار گرم رہے، سچے اور جھوٹے میں امتیاز واقع ہوجائے، وہ شخص پہچانا جائے جس کا ایمان صحیح ہے جو امتحان، آزمائش اور شیطانی شبہات کے وقت ثابت قدم رہا اور وہ شخص بھی پہچان لیا جائے جس کا ایمان صحیح نہیں جو ادنیٰ سے شبہ ہے پر متزلزل ہوجاتا ہے اور اس سے متضاد تھوڑی سی دعوت پر اپنے موقف سے ہٹ جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے امتحان کا ذریعہ بنایا ہے جس سے وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور پاک لوگوں میں سے ناپاک کو ظاہر کردیتا ہے ﴿وَرَبُّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ﴾ ” اور آپ کا رب ہر چیز پر محافظ ہے۔“ وہ بندوں کی حفاظت کرتا ہے، ان کے اعمال اور اعمال کی جزا کو محفوظ رکھتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کی پوری جزا دے گا۔