يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِن مَّحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ
جو کچھ سلیمان چاہتے تھے وہی کچھ وہ جن ان کے لئے بناتے تھے۔ مثلاً قلعے، مجسمے اور حوض جتنے بڑے لگن اور دیگیں ایک جگہ جمی رہنے [٢١] والی۔ اے آل داؤد! شکر کے طور پر عمل کرو [٢٢]۔ اور میرے بندوں میں سے کم ہی شکرگزار ہوتے ہیں
یہ شیاطین اور جن وہ تمام کام کرتے تھے جس کا حضرت سلیمان علیہ السلام ان کو حکم دیتے تھے ﴿مِن مَّحَارِيبَ﴾ ” قلعے“ اس سے مراد ہر ایسی تعمیر ہے جس کے ذریعے سے عمارتوں کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ گویا اس میں بڑی بڑی عمارتوں کا ذکر ہے ﴿ وَتَمَاثِيلَ﴾ ” اور مجسمے“ یعنی حیوانات و جمادات کی تماثیل بنانا ان کی اس صنعت میں مہارت، قدرت اور ان کا سلیمان علیہ السلام کے لئے کام کرنا ہے۔ ﴿وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ﴾ ” اور لگن جیسے تالاب“ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے بڑے بڑے حوض بناتے تھے، جن میں کھانا ڈالا جاتا تھا کیونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایسی چیزوں کی ضرورت مند تھے جن کے دوسرے لوگ محتاج نہ تھے اور وہ ان کے لئے بڑی دیگیں بناتے تھے جو بڑی ہونے کی وجہ سے اپنی جگہ سے نہ ہٹتی تھیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر اپنی نوازشات کا ذکر کرنے کے بعد انہیں ان نوازشات پر شکر کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ﴾ ” اے آل داؤد ! نیک عمل کرو۔“ اس سے مراد داؤد ان کی اولاد اور اہل و عیال ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا احسان ان سب پر تھا اور ان بہت سے فوائد سے سبھی مستفید ہوتے تھے۔ ﴿ شُكْرًا ﴾ یعنی اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا ہے۔ ﴿وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ﴾ اکثر لوگ، اللہ تعالیٰ نے ان کو جو نعمتیں عطا کی ہیں اور ان سے جو تکالیف دور کی ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے۔” شکر“ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا دل سے اعتراف کرنا، اپنے آپ کو اس کا محتاج سمجھتے ہوئے اس نعمت کو قبول کرنا، اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کرنا اور اس کی نافرمانی میں صرف کرنے سے گریز کرنا۔