أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ
کیا انہوں نے آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا جو انھیں آگے سے اور پیچھے سے (گھیرے ہوئے ہیں) اگر ہم چاہیں تو انھیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے کچھ ٹکڑے گرا دیں [١٢]۔ بلاشبہ اس بات میں ہر رجوع کرنے والے بندے کے لئے ایک نشانی [١٣] ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ایک عقلی دلیل کی طرف ان کی توجہ مبذول کی ہے جو موت کے بعد زندگی کے بعید نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اگر وہ اپنے آگے پیچھے زمین اور آسمان کی طرف دیکھیں تو انہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایسے مناظر نظر آئیں گے جو عقل کو حیران کردیتے ہیں، وہ اس کی عظمت کے ایسے مظاہر دیکھیں گے جو بڑے بڑے علماء کو حواس باختہ کردیتے ہیں اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ زمین و آسمان کی تخلیق، ان کی عظمت اور زمین و آسمان کے اندر موجود مخلوقات کی تخلیق قبروں میں مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ عظیم ہے۔ پس کس چیز نے ان کو اس پر آمادہ کیا ہے کہ وہ موت کے بعد زندگی کی تکذیب کرتے رہیں حالانکہ وہ اس سے مشکل تر چیز کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہاں ! موت کے بعد زندگی اب تک خبر غیبی ہے جس کا انہوں نے مشاہدہ نہیں کیا اس لئے انہوں نے اس کی تکذیب کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ﴾ ”اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں۔“ یعنی عذاب کا کوئی ٹکڑا کیونکہ زمین اور آسمان ہمارے دست تدبیر کے تحت ہیں۔ اگر ہم ان کو حکم دیں تو وہ حکم عدولی نہیں کرسکتے، لہٰذا تم اپنی تکذیب پر مصر رہنے سے باز آجاؤ ورنہ ہم تمہیں سخت سزا دیں گے۔ ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ﴾ یعنی زمین و آسمان اور ان میں موجود تمام مخلوقات کی تخلیق میں ﴿لَآيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ﴾ ”البتہ نشانی ہے ہر اس بندے کے لئے جو اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے“ اس کی اطاعت کرتا ہے اور اسے پورا یقین ہے کہ وہ انسانوں کی موت کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ بندہ مومن جس قدر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے گا، اسی قدر زیادہ وہ آیات الٰہی سے مستفید ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کا ارادہ اور ہمت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ بندہ ہر معاملے میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہ اپنے رب کے قریب ہوجاتا ہے اور اپنے رب کی رضا میں مشغولیت کے سوا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ مخلوقات پر اس کی نظر بے فائدہ اور غفلت کی نظر نہیں ہوتی بلکہ فکر و عبرت کی نظر ہوتی ہے۔