وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
کافر کہتے ہیں کہ ’’ہم پر قیامت نہیں آئے گی‘‘ آپ ان سے کہئے کہ : کیوں نہیں آئے گی، میرے پروردگار کی قسم! وہ تم پر آکے رہے گی۔ (اس پروردگار کی قسم) جو غیب [٥] کا جاننے والا ہے۔ اس سے آسمانوں اور زمین میں کوئی ذرہ بھر چیز بھی چھپی نہیں رہ سکتی۔ اور ذرہ سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی [٦] نہیں جو واضح کتاب میں درج نہ ہو۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت بیان کی جس کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو موصوف کیا ہے اور یہ چیز اس کی تعظیم و تقدیس اور اس پر ایمان کی موجب ہے تو ذکر فرمایا کہ لوگوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جس نے اپنے رب کی قدر کی نہ اس کی تعظیم کی جیسا کہ اس کا حق ہے، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے اس کے ساتھ کفر کیا اور اس کی مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا اور قیامت کی گھڑی کا انکار کیا اور اس کے بارے میں اس کے رسولوں اور ان کی دعوت کی مخالفت کی، لہٰذا فرمایا : ﴿ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں اور ان کی دعوت کا انکار کیا، انہوں نے اپنے کفر کی بنا پر کہا : ﴿لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ﴾ ” ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔“ یہاں اس دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہاں ہم زندہ رہتے ہیں اور پھر مر جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ان کے اس نظریے کی تردید اور اس کا ابطال کریں اور تاکید ان کو قسم کھا کر بتائیں کہ قیامت برحق ہے اور وہ ضرو رآئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی دلیل کے ذریعے سے استدلال کیا ہے کہ جو کوئی اس دلیل کا اقرار کرتا ہے وہ ضرور موت کے بعد زندگی ہونے کا اقرار کرے گا اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا لامحدود علم، چنانچہ فرمایا : ﴿عَالِمِ الْغَيْبِ ﴾ یعنی وہ ان تمام امور کا علم رکھتا ہے جو ہماری آنکھوں سے اوجھل اور ہمارے احاطہ علم میں نہیں ہیں، تب وہ ان امور کا علم کیونکر نہیں رکھتا جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے بارے میں تاکید کے طور پر ارشاد فرمایا : ﴿ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ﴾ یعنی اس کے علم سے کوئی چیز غائب نہیں ﴿مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ﴾ زمین و آسمان کی تمام اشیا اپنی ذات و اجزا سمیت، حتیٰ کہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا جز بھی اللہ تعالیٰ کے علم سے اوجھل نہیں۔ ﴿وَلَا أَصْغَرُ مِن ذٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ﴾ ” اور نہیں کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی مگر وہ کتاب واضح میں درج ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے، اس کا قلم اس پر چل چکا ہے اور وہ کتاب مبین یعنی لوح محفوظ میں درج ہوچکی ہے۔ اس لئے وہ ہستی جس سے ذرہ بھر یا اس سے بھی چھوٹی چیز کسی بھی وقت چھپی ہوئی نہیں ہے اور وہ ہستی جانتی ہے کہ زمین میں موت کے ذریعے سے کتنے افراد کی کمی واقع ہو رہی ہے اور کتنے زندہ باقی ہیں اور وہ ان کی موت کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر بالا ولیٰ قادر ہے۔ اس کا مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا، اس کے علم محیط سے زیادہ تعجب خیز نہیں ہے۔