يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
(اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال [١٠٩] کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کرلی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جو تقویٰ اور قول سدید پر مترتب ہوتے ہیں، لہٰذا فرمایا : ﴿ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ﴾ ” اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے گا۔“ یعنی تقویٰ اعمال کی اصلاح کا سبب اور ان کی قبولیت کا ذریعہ ہے کیونکہ تقویٰ کے استعمال ہی سے اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف پاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ﴾ (المائدۃ :5؍27) ” اللہ تعالیٰ صرف متقین ہی کا عمل قبول فرماتا ہے۔ “ تقویٰ کے وجود سے انسان کو عمل صالح کی توفیق عطا ہوتی ہے، تقویٰ ہی کی بنا پر اللہ تعالیٰ اعمال کی اصلاح کرتا ہے اور ان کے ثواب کی مفاسد سے حفاظت کرتا ہے اور ثواب کو کئی گنا زیادہ کرتا ہے اسی طرح تقویٰ اور قول سدید میں خلل اور فساد اعمال، ان کی عدم قبولیت اور ان کے اثرات مترتب نہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔ ﴿وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا“ جو تمہاری ہلاکت کا سبب ہیں۔ تقویٰ ہی سے تمام معاملات درست اور تمام برائیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ وَمَن يُطِعِ اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴾ ” اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ بہت بڑی مراد پائے گا۔ “