لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا
اگر منافق لوگ اور وہ جن کے دلوں میں مرض [١٠٠] ہے اور مدینہ میں دہشت انگیز افواہیں پھیلانے والے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف اٹھا کھڑا [١٠١] کریں گے۔ پھر وہ تھوڑی ہی مدت آپ کے پڑوس میں رہ سکیں گے
﴿لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ﴾ ” اگر باز نہ آئیں وہ لوگ جو منافق ہیں اور جن کے دلوں میں مرض ہے“ یعنی شک اور شہوت کا مرض ﴿ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ ﴾ ” اور جو مدینے میں جھوٹی خبریں اڑایا کرتے ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جو اپنے دشمنوں کو ڈراتے، اپنی کثرت و قوت اور مسلمانوں کی کمزوری کا ذکر کرتے پھرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عمل کا ذکر نہیں فرمایا جس کے بارے میں ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اس سے باز آجائیں تاکہ یہ اپنے عموم کے ساتھ ان تمام برائیوں سے رک جائیں جن پر انہیں ان کے نفس اکساتے، وسوسہ پیدا کرتے اور شرک کی طرف انہیں دعوت دیتے رہتے ہیں، مثلاً: اسلام اور اہل اسلام پر سب و شتم کرنا، مسلمانوں کے بارے میں بری افواہیں پھیلانا، ان کی قوتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرنا، مومن خواتین کے ساتھ برائی اور فحش رویے سے پیش آنا اور دیگر گناہ جو ان جیسے بدکردار لوگوں سے صادر ہوتے ہیں۔ ﴿لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ﴾ ہم آپ کو انہیں سزا دینے اور ان کے خلاف لڑنے کا حکم دیں گے اور آپ کو ان پر تسلط اور غلبہ عطا کریں گے۔ اگر ہم نے یہ کام کیا تو ان میں آپ کا مقابلہ کرنے اور آپ سے بچنے کی قوت اور طاقت نہ ہوگی۔ اس لئے فرمایا : ﴿ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا﴾ یعنی وہ مدینہ منورہ میں بہت کم آپ کے ساتھ رہ سکیں گے، آپ ان کو قتل کردیں گے یا شہر بدر کردیں گے۔